وَ جَاھِدُو فِی اللہِ حَقَ جِھَادِہ

جہاد

*    آیات

*    احادیث

*    فضائل

فہرستِ عنوانات

 

*     پیش لفظ  

*    جہادکے معنی

*   جہادکی نیّت

*    مؤمن کا جہادوطن کے لئیےنہیں،اسلام کے لئیےہے

*   ہماراوطن اسلام ہے

*   اسلامی جہادکاناقابلِ تسخیرسامان

*   امدادِخداوندی کی شرائط

*   دس10 آیاتِ کریمہ کاخلاصہ

*   جہادکی تیاری اورسامانِ جنگ کی فراہمی فرض ہے۔

*   سامانِ جنگ کی صنعت سیکھنے کے لئیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) کابیرونِ ملک سفر

*   رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت

*   بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے

*   عہدِرسالت میں بلیک آوٹ کی ایک نظیر

*   جہادعام حالات میں فرضِ کفایہ ہے

*   فرضِ کفایہ بعض اوقات فرضِ عین ہوجاتاہے

*   جہادکب فرضِ عین ہوجاتاہے

*   جہادکے بارے میں متفرّق اہم مسائل کاذکر

*                      فضائل جہاد کی چہل40 حدیث

*                      شہری دفاع کی خدمت بھی جہادہے

*                      جہادمیں کیانیّت ہونی چاہیے

*                      اسلامی سرحدوں کی حفاظت(رباط)

*                      رینجرزپولیس کے لیے عظیم الشان بشارت 

*                      شہیدفی سبیل اللہ کامقام اوراس کے درجات

*                      شہیدکے تین درجے

*                      مجاھداپنی موت مرجائےتوبھی شہیدہے

*                      مال اورزبان سے بھی جہادہوتاہے

*                      جہادکے لیے مال خرچ کرنے کاعظیم ثواب

*                      ہندوستان پرجہادکی خاص اہمیّت اورفضیلت

*                      ہندوستان کے جہادسے کونساجہادمرادہے؟

*                      ترکِ جہادکی وعیداوردنیامیں اس کاوبال

*                      ترکِ جہادمصائب کودعوت دیتاہے

*                      جہادکے لیے سامان مہیّاکرنابھی جہادہے

*                      غازی کوسامانِ جہاددینایااسکے گھرکی خبرگیری کرنابھی جہادہے

*                      دفاعی فنڈمیں چندہ کاثواب عظیم

*                      جہادسے ہرگناہ معاف ہوجاتاہے مگرفرض اورخیانت معاف نہیں

*                      بحری فوج  کےلیے عظیم سعادت

*                      جہاداورزمانہ جنگ کی دعایئں

*                      جہادکے مختلف اوقات کی دعایئں (قنوتِ نازلہ)

*                      عملِ جہاد (مرتب محمدراشد)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیمط

 

 

اَلۡحَمدُ لِلہِ الّذِیۡ ھَدَانَا لِھَذَا وَ ماَ کُنِّا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہُ والصَلٰوۃ وَ السلام علی من ارسلہ با الھُدایٰ ودِینَ الۡحَق و کفاہ و علی الِہِ و صَحبِہ و کُلِ مَنِ اھتدیٰ  بِھُدَا ہ

 

اما بعد

جہاد اسلام کے فرائض میں نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ کی طرح اسلام کا پانچواں فرض ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ الجہاد ماض الی یوم القیامۃ یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک۔

قرآن و سنّت کی بے شمار نصوص  اور اجماع امت جہا د کی فر ضیت کا اعلان کر رہے ہیں۔

لیکن ہندوستان پر انگریزی تسلط کے بعد وہاں کے مسلمانو ں کو کھلے طور پر کفار کے ساتھ جہاد و قتال کے مواقع نہ رہے اورر فتہ رفتہ لوگوں کے ذہن سے اس کی ضرورت اور فضائل اور مسائل بھی غائب ہونےلگے۔ عام دیندار مسلمان بھی نماز، روزے کے مسائل سے توکچھ نہ کچھ واقف ہوتے ہیں۔جہاد کب فرض ہوتا ہے ؟ اس کے احکام کیا ہیں؟ آداب کیا ہیں ؟ اس کی واقفیت تقریبًا مفقود ہوتی چلی گئی۔

دنیاکی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان قائم ہوجانے کے بعدہمارافرض تھا کہ سب سے زیادہ اس فریضئہ جہادپرتوجّہ دیتے اوراسکے اسباب ووسائل جمع کر نے میں لگ جاتے اورپاکستان کے مسلمان نوجوانوں کوفوجی تربیّت دی جاتی،ان کے دلوں میں جہادکاجذبہ پیداکیاجاتا۔ مگرافسوس ہے کہ ہم نے یہاں پہنچ کربھی اس فریضہ کواسی طرح نسیان میں ڈالے رکھاجس طرح پہلے سے تھا۔

اور قرآن و سنّت کی نصوص نیزپوری تاریخ اسلام کا تجربہ شاہد ہے ۔ کہ جب بھی ملسمان جہاد چھوڑدیتے ہیں تو دوسری قومیں ان پر غالب آ جاتی ہیں، ان کے دل ان سے مرغوب ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے آپس میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ وہ جذبہ شجاعت و حمیّت جو کفّار کے مقابلہ میں صَرف ہونا چاہیےتھا وہ آپس میں صَرف ہونے لگتا ہے اور یہی ان کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔

اس وقت ہم اپنی اس غفلت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ سب طرف  سے دشمنوں کی یلغار ہے اور مسلمان مختلف پار ٹیوں، فر قوں اور نظریوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے کے مقابلے میں برسرِ پیکار ہیں۔

 

   1965 میں پاکستان پر بھارت کےاچانک حملہ کے وقت  احقر نے ایک رسا لہ بنام "جہاد"لکھا تھا،جس میں جہاد کی تعریف اوراس کے احکام اور فضائل و  برکات کا مفصل بیان تھا۔دوسرے علماء کی طرف سےبھی اخباری بیانات اور ر سا ئل اس طرح شائع ہوئے اور عام مسلمان دُعا کی طرف متوجہّ ہوئے۔

الحمد اللہ! اُس وقت حق تعالٰی نےاپنے فضل سے بہت جلد تمام مسلمانوں میں جذبّہ جہاد عام فرما دیا اور فسق اور فجور کےبازارسرد پڑ گئے۔اللہ تعالی کی طرف سےتوجہ بڑھ گئ۔ اس کے نتیجے میں حق تعالی کی غیبی امدادکا کھلی آنکھوں سب نے مشاہدہ کیا۔ اس کا شکر تو یہ تھا کہ ہم جنگ ختم ہو نے کے بعد اور زیاد ہ اللہ کی طرف رجوع ہوتے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے جہادکی تیاری میں لگ جاتے،مگرافسوس ہے کہ معاملہ برعکس ہوااوراب پھراسی پرانے دشمن نے ہماری سرحدات پرحملے شروع کردئیے۔اس لیے اب یہ رسالہ کسی قدرترمیم کے ساتھ پھرشائع کیاجارہاہے۔ضرورت اس کی ہے کہ اس رسالہ کی اشاعت پاکستانی افواج میں اورعام شہریوں میں کثرت سے ہو ۔شایداللہ تعالٰی ہماری غفلتوں اورگناہوں کومعاف فرمادے اورہمارے دلوں میں پھرسے جہادکا جذبہ پیدافرمادیں اورہمیں اس کاحق اداکرنے کی توفیق بخشیں۔                                                                                                   بندہ محمدشفیع                                                                                          

(6شوال 1391ھ)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جہادکے معنی

لغت میں کسی کام کےلیے اپنی پوری  کوشش اورتوانائی خرچ کرنےکے ہیں اورشریعت کی اصطلاح میں اللہ کا کلمہ بلندکرنے اوردشمن کی مدافعت کرنے میں جان ،مال،زبان،قلم کی پوری طاقت خرچ کرنے کو جہاد کہاجاتاہے۔

امامِ راغب اصفہانی نے لفظِ جہادکی تشریح کرتے ہوے فرمایاکہ جہاد کی تین قسمیں ہیں ،ایک کھلے دشمن کامقابلہ ،دوسرے شیطان اوراس کے پیدا کئیے ہوئے خیالات کامقابلہ،تیسرے خود اپنےنفس  کی ناجائز خو اہشات کا مقابلہ ۔

مطلب یہ ہے کہ جوچیزبھی اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے راستہ میں رکاوٹ  ہے ،اس کی مدافعت  جہاد ہے اوریہ رکاوٹ عادتاً انہیں تین طرفوں سے ہوتی ہے۔اس لیے جہادکی تین قسمیں ہوگئیں۔امامِ راغب نے یہ تین قسمیں بیان کرنے کے بعدفرمایاکہ  ارشادِقرآنی ہے۔وَ جاَھِدُوۡفیِ اللہِ حَقَّ جِہَادِہ (یعنی جہادکرواللہ کی راہ میں پوراجہاد)۔

یہ جہادکی تینوں قسموں کو شامل ہے ۔

بعض روایات حدیث  میں نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ اسی لئیے جہاد قرار دیا ہے۔   

قرآنِ کریم کی کئ آیتوں میں جہاد کےلیے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد فرمایا ہے ۔وَتجاھِدُوۡنَ فیِۡ سبیلِ اللہِ بِاَموَالِکمُ ۡ وَاَنفسکم کابھی یہی مطلب ہے اوررسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلمّ نےفرمایاکہ جس شخص نے کسی غازی کوسامانِ جہاددے دیااس نے بھی جہادکرلیا۔

اورایک حدیث میں زبان کے جہادکوبھی جہادقراردیاہے۔اورقلم چونکہ ادائے مضمون میںزبان ہی کے حکم میں ہے،اس لیے قلمی دفاع کوعلماء اُمّت نے جہادمیں شامل فرمایاہے۔

مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ لفظِ جہاد اصطلاحِ شرع میں اللہ کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کے مقابلہ اور مدافعت کے لیے عام معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مگر عرفِ عام میں جب لفظِ  جہاد بولا جاتا ہے توعموماً اس کے معنی دشمنانِ دین کے مقابلہ میں جنگ ہی سمجھے جاتے ہیں جس کے لیے قرآنِ کریم  نےلفظِ قتال یا مقاتلہ  استعمال فرمایا ہے ۔

 

 

جہاد کی نیّت

ہر مسلمان جانتا ہے کہ تمام عبادات اسلامیہ کی صحِت کامدارنیّت صحیح ہونے پر ہے ۔ اسی لیے نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج سب  ہی کی ادایئگی میں نیّت درست کرنا فرض اور ضروی سمجھا جاتا ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا واضح ارشاد اس معاملہ میں  یہ ہے۔ اِنما الا عما ل بالنیّاتِ وانمالامریٔمانوٰ ی(صحیح بخا ری)'اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر انسان کو اپنے عمل کے بدلہ میں وہی چیز ملتی ہے جس کی نیّت کی ہے  ۔

یعنی عبادات کا ثواب جب ہی کسی کو ملتا ہے جب کہ اس کی نیّت خالص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماںبرداری اور رضاجوئی کی ہو ۔ دنیا کا مال ومتاع یاجاہ ومنصب مقصود نہ ہو،ورنہ اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ  ریاء ہے جوبجا ئے ثواب کے گناہِ عظیم ہے۔

علماء اسلام نے اس حدیث  کو ایک چوتھائی اسلام قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا حصّہ اس پر موقوف ہے۔

وہ عالم جودنیا کی شہرت اورنام ونمود کےلیےعلمی خدمات انجام دیتا ہے یا وہ غازی جو جہاد میں شہرت وانعام کی خاطر جانبازی کرتااور شہید ہو جا تا ہے ۔ اور وہ شخص جو نام ونمود کے لیے دینی خدمات میں بڑی فیاضی سے مال خرچ کرتا ہے ۔

ان تینوں کے متعلق صحیح حدیث میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے  کہ ان کو یہ  کہ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا کہ تو نے جس مقصد کے لیے علمِ دین کو استعمال  کیا یا جس مقصد کے لیے جان دی ، یا جس مقصد کےلیےمال خرچ کیا،وہ مقصد ہم نے تجھے دنیامیں عطاکردیاکہ لوگوں میں تیرے عالم،ماہرہونے کی شہرت ہوئی ،یاتجھے غازی اور شہید کے نام سے پکارا گیا،یامال خرچ کرنےکی بناء پرتجھےسخی اور فیاض کہا گیا۔اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟العیاذبا للہ!

جہاد کے میدان میں اُترنے والے ہمارے بھائی جوساری دنیاکوچھوڑکراپنی جانوں کی بازی لگاتے ہیں،دنیاوآخرت کے اعتبارسے کتنابڑاکارنامہ ہےکہ اسکے ثواب کااندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، انُ حضرات کے لیے نہایت اہم ضرورت اس کی ہے  کہ رسو لِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ِِِِ مذکورکو ہر وقت سامنے رکھیں اور جہاد میں اخلاص کے سا تھ صرف یہ نیّت کریں کہ اللہ کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی حفا ظت اور دشمنا نِِ دین کی ی مدافعت کرنا  ہے۔ دنیا کے ثمرات ونتائج اور انعامات بھی اللہ تعا لیٰ ان کو عطا فرما یئں گے ۔ مگر جہاد کے وقت ان چیزں کو اپنے دل میں نہ آنے دیں ۔ وَاللہ الموفق  وا لمعین ۔

 مؤمن کا جہادوطن کے لیے نہیں،

اسلام کے لیے ہے

اسلام نےاپنے ابتدائی دورمیں نسلی،قبائلی،وطنی،لسانی وحدتوں کے بت توڑکرایک اسلام کی وحدت قائم کی تھی جس میں مشرق مغرب کے بسنے والے کالے گورے ،عربی،ہندی سب یکساں شریک ہوں ۔یہ ایک ایسی وحدت قائم ہوئی جس نے دنیاکی ساری وحدتوں کوزیروزبرکردیا۔

چند صدیوں سے یورپ والوں نے اس اسلامی وحدت کی بے پناہ قوت سے عاجز ہوکر  بڑی چالاکی سےلوگوں میں پھروطن پرستی اور نسب پرستی کے جذبات بیدار کئے تاکہ اسلامی وحدت کو جعرافیائی اور نسلی تفرقوں میں بانٹ کر  پارہ پارہ کر دیں۔ کفار کے پاس تو کو ئی ایسا دین و مذہت نہیں ہے جسکے نا م پر  تما م  دنیا کے انسانوں کو جمع کر سکیں۔اس لے وہ ہمیشہ یا اپنے قبیلہ اور نسب کی حفاظت کے لیے اسی کے نام پر جنگ  کرتے ہیں، یا پھر اپنے وطن اور ملک کے نام پر لوگوں کو دعوتِ اتّحاّد دیکر جمع کر تےہیں اور لڑتے ہیں۔ِِ

 مسلمان قوم کو اللہ تعا لٰی نے ان سب چیزوں سے با لا تر  رکھا ہے۔ وہ صرف اللہ کے لیے اور اسلا م کے لیے جہاد کرتا ہےاور وطن یا نسب اللہ تعا لیٰ اور اسلا م کی راہ میں حائل ہو ، اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کر دیتا ہے ۔ اسلام کی سب سے پہلی ہجرت ِمدینہ نے اور بدرِ اُحد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیے ہیں ، کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لیے پڑی ہیں کہ اللہ و رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے ۔ اگر وطنی اور قبائلی وحدتیں مقصد ہوتیں تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔                                                                       

آج کل عام لوگوں کی زبان پر وطن کانعرہ سنتے سنتے مسلمان بھی اس کے عادی ہوگئے اوراپنے جہادکووطن کےلیےکہنےلگے۔اللہ تعالٰی کاشکرہےکہ ہمارےاکثرنوجوانوں کےخیالات اس سے پاک ہیں۔وہ اپنی جان اللہ کےلیے دیتےہیں نہ کہ وطن کے لیے۔ لیکن رائج الوقت زبان کا ایک محاورہ  بن جانے کی وجہ سے اکثر ہمارے شعراء اور خطباء غالباً بے خیا لی میں یہ الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایسے مشرکانہ الفاظ سے بھی اجتناب  کیا جائے ۔

 

 

 

ہماراوطن اِ سلام ہے

ہم وطن پرست نہیں۔ہمیں اس وطن سے ہجرت کر جانے کا حکم ہے جس میں رہ کر ہم اسلام کے تقاضے پورے نہ کر سکیں۔

یہی وہ نظریہ ہے جس نے پاکستان بنوایا اور کروڑوں مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر آمادہ کیا ۔ شاعر مشرق اقبال مرحوم نے اس مضمون کو بڑی ہی لطافت سے ا دا کیا ہے ۔ وطنیّت پر ان کے چند اشعار اس جگہ نقل کیے جاتے ہے ؂     

    اس دور میں مےَاور ہے جام اور ہے جم اور ہے         ساقی نے بِنا کی روشِ لطف وکرم اور  

   مسلم نے بھی تعمیر کیا  اپنا حرم اور                      تہذیب کے آزر نے ترشو ائے صنم اور

ان تازہ خدا ؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کاکفن ہے

    یہ بت کہ تراشیدۂ  تہذیب نوی ہے                   غار تگر کا شاؐنہ دینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے                

    بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے                     اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے  

                                               نظارۂ دیرینہ زمانے کو د کھا دے

                                    اے مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ، خاک میں اس بت کو ملا دے ۔

اسلامی جہاد کا نا قا بلِ تسِخیر   سامان

صبراور تقویٰ ہے ،

دنیا اپنے حریف پر غلبہ پانے کے لیے طرح طرح کے سامان اور تدبیریں کرتی ہے اور اس سائنس کی  ترقی کے زمانہ میں تو ان سا ما نوں اور تدبیروں کی حد نہیں رہی ۔ اسلام بھی ضروری  مادی تدبیریں اور سامانِ جنگ جمع کرنے کا حکم دیتا ہے جیسا کہ اس کا مفصّل  بیان آگے آتا ہے ۔ لیکن یہ ظاہرہےکہ مادی سامان وتدبیرمیں مسلمانوں کودوسری قوموں سے کوئی خاص امتیاز  حاصل ہے نہ ہو سکتا ہے بلکہ عادتاً غیر مسلموں کی ساری ذہنی فکری توانائی اور سارا زور چونکہ ان ہی مادی سامانوں میں صرف ہو تا ہے وہ اس معا ملہ میں مسلمانوں سےہمیشہ زیادہ ہی رہیں گےاورتاریخ کےہردورمیں ایساہی ہوتا رہاہے۔

البتہ مسلمانوں کےپاس ایک اورایسی قوت ہےجوناقابلِ تسخیررہی ہے،اوردوسری قومیں اس سےعاجزہیں۔وہ ہےاللہ تعالٰی کی نصرت اورغیبی امداد۔مگرقرآن نےاس تائیدرباّنی کےحاصل ہونےکی کچھ شرطیں رکھی ہیں۔جب بھی مسلمان اِن شرطوں کوپوراکرلیں تواللہ تعالٰی کی نصرت وامدادآتی ہےاورتھوڑی تعدادتھوڑےسامان کو بڑی سےبڑی تعداد اورجنگی سامانوں پرغالب کردکھاتی ہے۔

اورجب مسلمان خودان شرطوں کو پوراکرنےمیں سستی اورغفلت کریں توپھراس امدادونصرت کا اللہ تعالےٰ کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں ۔ ایسی حالت ہمیں اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں سمجھنا چاہیے یہ دوسری بات ہے کہ اللہ جلّ شانہُ اپنے خاص فضل وکرم سے  مسلمانوں کے ضعف پر رحم فرما یئں اور  بلا شرط بھی  اپنی امداد بھیج دیں ، جیسا کہ  65 ٔ   میں پاکستان پر بھارت کے حملہ کے وقت اس کا مشاہدہ ہوا کہ ہم  اور ہماری قوم ان شرطوں پر کسی  طرح پوری نہیں اترتی تھی  جن کے ذریعے امدادِ  الہی آنی چاہیے ۔ مگر اس اپنے فضل سے یک بیک ہمارے حالات میں بھی انقلاب پیدا  کرکے ہمیں صبروتقویٰ کے قریب کردیا اور اپنی امداد کے اسے معجزات دکھاۓ کہ دشمنوں کو بھی اس کا قائل ہونا پڑا ۔ امدادِ  الہی کے لیے وہ شرطیں  کیا ہیں ؟ قرآنِ کریم کی آیات ذیل میں تلاش کیجیے : ۔

      1 : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153) (بقرہ ع 109  )

ترجمہ :۔ اے ایمان والو  ! مددمانگواللہ سےصبراورنمازکےذریعہ۔

2:۔وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ( .177بقرہ ع 22 )

ترجمہ :۔ نیکوکار وہ لوگ ہیں جو تنگ دستی اور بیماری میں اور دشمنوں سے جہاد کے وقت صبرکرنے والے یعنی ثابتِ قدم رہنے والے ہیں  یہی لوگ صادقین ہیں اور یہی متقی ہیں ۔

3 قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (250 بقرہ ع 33 )   

ترجمہ :۔ (جہاد میں نکلنے والو نے کہا ) اے ہمارے پروردگار عطا کر دے ہم کو صبر اور ہمیں ثابتِ قدم رکھ اور کافروں کی قوم کے مقابلہ پر ہماری مدد فرما ۔

4وَاِنۡ تصبرو او تتقو ا لا یضر کم  کیدھم شیاً ،(آل عمران ع13)

ترجمہ:۔اوراگرتم صبرکرواورتقویٰ اختیارکروتوان کی کو ئی جنگی تدبیر تمھیں نقصان نہیں پہنچائےگی۔

5بلیٰ اِنۡ تصبرُوۡاوَتتقوۡاوَیاۡتوۡکمۡ منۡ فوۡرِھِمۡ ھذَایمدِدۡکمۡ رَبکمۡ بخمسۃِ اٰلاَفٍ منۡ الملئکۃُ مسوِّ مینَ،

ترجمہ:۔بےشبہ اگرتم نے صبر اور تقو یٰ اختیا ر کیا اور دشمن فو راً ہی تم پر ہی ٹوٹ پڑے تو  تمہارا پروردگار پانچ ہزارنشانہ کرنیوالےفرشتوں سے تمھاری مدد فرما ئے گا ۔

6وان تصبرو اوتتقو ا فاِ نَ ذٰ لک من عزم ا لا موۡرِ  ، ( آل عمران ع 9 )

ترجمہ :۔ اور اگر تم نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا تو یہی ہمت کے کام ہیں ۔

7یاایھا الذین  اٰمنو ا اصبروا وصابروا ورابطو واتقو ا اللہ لعلکم تفلحون  ( آل عمرن  ختم )

ترجمہ:۔ اےایمان والو صبر کرویعنی ثا بت قدم رہو اور دو سروں کو بھی ثا بت قدم رکھو اور دل لگائے رہو عبادت میں تا کہ تم فلا ح و کا میا بی حا صل کر و۔

8وَقالَ موۡ سیٰ لقوۡمہ ا ستعینوۡ ا با للہِ وا صبرۡوۡا انَ الا رۡض للہ یورِۡ ثھا من یشاء  من عبا د ہ والعاَ قبۃُ للمتقینَ،(اعراف،15)

تر جمہ:۔مو سیٰ علیہ ا لسلا م نے اپنے قو م سے کہا کہ اللہ سے مد د ما نگو اور ثا بت قد م رہو َ۔ بے شبہ زمین اللہ ہی کی ہے۔ وہ اپنے بند وں میں جس کو چا ہے اس کا ما لک و وارث بنا دے اورانجام کارکا میا بی تقویٰ شعا ر لوگوں کی ہی ہے۔

9و تمت کلمۃ ر بک الحسنیٰ علےٰ بنیۡ اسرَ ا ئیلَ بما صبررُوۡ او دمر ناَ ماَ کاَنَ یصنعُ فرعونَ وَ قومہٗ وماَ کاَ نوُ ایعر شوۡنَ۔(اعراف ع16)

تر جمہ:۔اور اپنے رب کا نیک و عد ہ بنی اسر ا ئیل کے حق میں ان کے صبر کی جہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فر عو ن کے اور اس کی قوم کےسا ختہ پر وا ختہ کا ر خا نوں کو اور جو کچھ وہ او نچی او نچی عما رتیں بنو ا تے تھے، سب کو در ہم بر ہم کر دیا ۔

10:۔اِنہٗ منۡ یتقِ وَ یصبرۡ فاِ نّ اللہَ لاَ یضیعُ اَجرَ المحسنینَ،

تر جمہ:۔اس لیے کہ جو شخص صبر اور تقو یٰ اختیا ر کرتا ہے تو اللہ تعا لٰی ایسے نیکو کا ر لو گو ں کا اجر ضا ئع نہیں کر تے۔

قر آن کر یم کی یہ دس آ یتیں ہیں ۔ان کو پڑھیئے اور بار بار پڑھیئے۔ ان میں انسا ن کے تما م ا ہم مقا صد خصو صاًجہاد اور دشمنوں کے مقا بلہ میں اللہ تعا لٰی کی غیبی تا ئید اور نصرت وامد اد حا صل کر نے کا نسخہ بتلا یا گیا ہے۔ اس نسخہ کے دو تین اجزاء اپ کو ان سب آیا ت میں مشترک نطر آئیں گے ۔

صبر،تقویٰ، نما ز۔

ان آ یا ت میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ابتدا ئے آفر ینَش عا لم سے اللہ تعالٰی کا یہی  دستور  رہا ہے کہ اس تا ئید ونصرت ان ہی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو ایمان کے ساتھ نماز اور صبر وتقویٰ کے پابند ہو ۔ 

نماز کا مفہوم اور اس کی اہمیت تو سب ہی مسلمان جانتے ہیں ۔ صبر کا لفظ عربی زبان  میں ہماری زبان کے  عرفی معنی سے بہت عام معنی رکھتا ہے ۔عربی زبان میں صبر کے عام معنی روکھنے کے ہیں۔ اور قرآن کی اصطلاح میں  نفس کو اس کی بری خواہشات سے روکنے کے ہیں اور قابو میں رکھ کر ثابت قدم رہنے کے ہیں ۔

اور تقویٰ کا ترجمہ پرہیزگاری کیا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں  اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مکمل اطاعت وفرماں برداری کا نام تقویٰ ہے ۔

اسلامی تاریخ کے قرن  اوّل میں جو چیزیں  مسلمانوں کا شعار اور طرہ امتیاز تھیں وہ یہی نماز اور صبر اور تقویٰ ہیں  اسی کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی نے انہیں ہر میدان میں فتح مبین اور کا میابی عطا فرمائی ۔ آج بھی اگر ہم اس اصول پر کار بند  ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں کی امداد ہم سے کچھ دور نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ،  

فضائے بدر پیدا کر  فرشتے  تیری  نصرت  کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

جہاد کی تیاری اور سامان  جنگ کی

فراہمی بھی فرض ہے ۔

صبروتقویٰ اور اللہ تعالٰی پر ایمان وتوکل  تو مسلمانوں کی اصل اور نا قابل  تسخیر  طاقت ہے ہی  اس کے ساتھ  یہ بھی ضروری ہے کے ہر زمانہ اور ہر مقام کے مناسب اسلحہ اور سامان جنگ بھی جمع کیا جائے ۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے ۔

واَعدوا لھمۡ ما ا ستطعتم  منۡ قو ۃ  ومن ربا ط الخیل  تر ھبونَ  بِہِ  عدواللہ وعدوکمۡ  ۔

ترجمہ :۔ اور تیار کرو تم دشمن کے لیے جتنا بھی تم کرسکو سامان جنگ اور سدھے ہوئے گھوڑے تاکہ دھاگ پڑجائے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر ۔ 

رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگی مشقوں کا اہتمام فرمایا ۔ اس زمانہ میں جو جنگ کے ہھتیار تھے ان کوجمع کرنے کی ہدایتیں فرمائیں ۔ جہاد کے لیے گھوڑے ، اونٹ، زرہ بکتر وغیرہ جمع فرمائے ۔ تیراندازی اور نشانہ بازی کی مشق کے لیے ہدایت فرمائی ۔ 

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہ (عنہم) نے سامانِ جنگ کی صنعت

سیکھنے کے لیے دوسرے ملکوں کا سفر کیا ۔

امام حدیث وتفسیر  ابن کثیر نے  اپنی تاریخی  کتاب (البدایہ والنہایہ )  میں غزوہ حنین  کے تحت نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دو2 صحابی حضرت عروہ رضی اللہ عنہ (عنہم)  بن مسعود اور غیلان بن اسلم رضی اللہ عنہ (عنہم)اس جہادمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس لیے شرکت نہیں کرسکےکہ وہ بعض جنگی اسلحہ اورسازوسامان کی صنعت سیکھنےکےلیےدمشق کےمشہورصنعتی شہرجرشؔ میں اس لیےگئےہوئےتھےکہ وہاں دبّابہؔ اورضبوّرؔ کی وہ جنگی گاڑیاں بنائی جاتی تھیں جن سے اُس وقت آج کل کے ٹینکو ں جیسا کا م لیا جاتا تھا ۔اسی طرح منجنیق کاوہ آلہ جس سے بھا ری بھاری پتھرپھینک کر قلعہ شکن توپوں کاکام لیا جا تا تھا،اس کی صنعت بھی وہا ں تھی ۔یہ صنعتیں سکیھنے کے لیے ان بز رگوں نے ملک شام کا سفر اختیا ر کیا تھا۔اس واقعہ سے یہ بھی ثا بت ہوا کہ مسلما نوں کے لیے ضر وری ہے کہ اپنے ملک کو جنگی اسلحہ اورسا ما ن کے لیے خو د کفیل بنا ئیں دوسروں کے محتا ج نہ رہیں ۔ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ جنگی  گا ڑ یا ں اور منجنیق  وہا ں سے خر ید کردرآ مد کر لی جا تیں ۔مگر  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کر ا م رضی اللہ عنہم نےاس پراکتفا نہیں فرما یا بلکہ خوداپنے یہا ں ان کے تیا ر کرنے کی تد بیر اختیا ر فر ما ئی۔ہما را فر ض ہے کہ ہم اس پر پو را غو ر کر یں کہ  رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وہ روحانی اور ربانی طاقت اور نصرت حاصل تھی  جس کے ہوتے ہوئے مادی سامان کی چنداں  ضرورت نہیں تھی ۔ مگر پھر بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کااس قدر اہتمام فرمایا ، تو ہم جیسے گناہگار ضعیف الایمان لوگوں کو اس کی ضرورت کس قدر زیادہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جنگ کے لیے جس طرح کے اسلحہ اور آلات و سامان کی ضرورت ہے ، ان میں  کسی سے پیھچے نہ رہیں ، اور اس کی کوششں میں لگ جائیں کہ قریب  سے قریب مدت میں ان چیزوں کےلیے اپنی ملک کوخود کفیل بنا سکیں ۔ واللہ الموفق والمعین ۔

 

رباط  یعنی اسلامی سر حدات کی حفا ظت

جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ  رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی  اصطلاح میں '' رباط  '' کہا جاتا ہے ۔ اورجہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضا ئل  قرآن وحدیث میں مذکور ہیں ۔ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم)  کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح  دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا   تھا ۔

آج کل  یہ فرائض  ہماری رینجر ز  پولیس انجام دیتی ہے ۔ اگر نیت میں اخلاص اور اسلامی ملک کی حفاظت کا جزبہ ہو تو تنخواہ لینے کے باوجود بھی یہ ''رباط '' کے ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ 

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ ایک دن اللہ کی راہ میں رباط کی خدمت انجام دینا ایک مہینہ کے مسلسل روزے اور شب بیداری سے افضل ہے۔اور اگر اسی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا تو جو نیک عمل یہ کرتا تھا وہ مسلسل  اس کے نامئہ اعمال میں مرنے کے بعد بھی لکھے جاتے رہیں گے اور  قبر کے سوال وجواب اور عذاب سے محفوظ رہے گا ۔

اور طبرانی کی روایت  میں یہ بھی ہے کہ جو   شخص قیامت کے روز  شہیدوں کے ساتھ   اٹھا یا جائے گا اور قیامت کے ہولناک عذاب میں بھی اس کو اطمینان ہو گا ۔ (فتح ا لقدیر )

رباط کا مفہوم اسلامی سرحدات کی حفاظت ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کام ان ہی مقامات پر ہوسکتا ہے جو اسلامی ملک کی آخری حدود پر واقع ہیں ۔

لیکن اس زمانے کی فضائی  جنگ نے اس معاملہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے ، کیونکہ  چھاتہ  بردار فوج  ہر جگہ اتر سکتی ہے، بم بار طیاروں سے ہر جگہ بم گرائے  جاسکتے ہیں ، اس لیے جن مقامات پر بھی د شمن کی اسی یورش کا خطرہ ہو ، ان کے حفاظتی انتظامات بھی اسی رباط  کے حکم میں داخل ہوں  گے ۔

قدیم فقہائہ نے بھی رباط کے معاملہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس بستی پر ایک مرتبہ دشمن حملہ کر دے اس کی حفاظت  چالیس 40  سال تک رباط کے حکم میں داخل ہے ۔ (فتح القدیر ،  ص 278 ، ج 4  )

پاکستان کے سابقہ جہاد میں سرگودھا ، پشاور ،  کراچی وغیرہ مقامات  جہاں چھاتہ بردار فوجیں اترنے کے خطرات پائے گئے اور جہاں دشمن کے بمباروں نے بمباری کی ، ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے ۔  

یہ ایسا جہاد ہے  جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے ، بشر طیکہ اخلاص کے ساتھ اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کا جذبہ رکھتا ہو اور مقدور  بھر اس میں کوشش کرے ۔

بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے

ایسے خطرات کے وقت جن بستیوں میں حکومت کی طرف سے اندھیرا جاری رکھنے کی ہدایت جاری ہو ان کی تعمیل  بھی ان ہی  حفاظتی انتظامات کے تحت رباط کے حکم میں داخل ہو کر انشأ اللہ ا س  ثواب عظیم کا موجب ہوگی۔مسلمان اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ مفت کا ثواب  رباط حاصل کرنے پر خوش   ہوں اور شکر ادا کریں۔

عہد  رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم  میں بلیک آؤٹ کی ایک نظیر

جنگی حالات اور ان کے تقاضے ہر زمانے  اور ملک میں جدا ہوتے ہیں ۔ ملک کے مبصر اور اربابِ حکومت جس چیز   کو شہری دفاع کے لیے ضروری قرار دیں ، اس کی تعمیل شرعی حیثیت سے بھی ضروری ہو جاتی ہے ۔ خواہ اس معین چیز  کا ثبوت قرونِ  اولٰی کی روایات میں ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ بنیادی مسئلہ مباحات میں اطاعت امیر کا ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے، وہی ان تمام جا ئز  کاموں میں تعمیل حکم کی اصل علت ہے لیکن کوئی خاص کام اگر سرور کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کام رضی اللہ عنہ (عنہم)  سے بھی منقول ہو تو اس کا محبوب و مشروع ہونا اور مبارک عمل ہونا ظاہر ہے ۔   

دوران جنگ پاکستان میں شہری دفاع کے لیے حکومت میں رات کو روشنی کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ اطاعتِ حکم کے تحت تو اس کی تعمیل ضروری تھی ہی ، اتفاق سے اس کی ایک نطیر خود عہد رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم  میں بھی ملتی ہے جو ناظرین کی دلچسپی اور ایمان کو مستحکم کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے ۔ جمادالثانی 8 ھ میں جہاد کے لیے ایک لشکر مدینہ طیبہ دس منزل کے فاصلہ پر لخم وجزام کے قبائل مقابلہ کے لیے بیھجا گیا تھا جس کے امیرحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے اس عزوہ میں دشمن کےسپاہوں  نے پوری فوج کو حلقئہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے ۔ اسی لیے یہ غزوہ '' ذات السلاسل '' کے نام سے موسوم ہے ۔ ( یاد رہے کہ جنگ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی دور صحابہ میں اس کے بعد ہوئی ہے ) ۔   

حدیث مشہور کتاب جمع الفوائد  میں معجم کبیر طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس غزوہ ذات السلاسل میں امیر لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے اپنی فوج یہ حکم دیا کہ لشکرگاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ ہی آگ جلایئں ۔ 

تین دن کے بعد دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ بھاگتے ہوئی دشمن  کا صحابہ کرام نے جو  لشکر میں موجود تھے ، تعاقب کرنا چاہا مگر امیر لشکر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے تعاقب سے بھی منع کردیا ۔ لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم ہی ناگواری تھی ،کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوارہ گزرا، مگر اطاعت امیر کی بناء پر تعمیل لازمی تھی ، اس لیے ان دونوں احکامات کی بلا چون  و چرا پابندی کی گئی ۔ البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے شکایت کی گئی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) بلا کروجہ دریافت فرمائی ۔   

حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں تھوڑی تھی ، اس لیے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلتِ  تعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہو جائے  اور اس کا حوصلہ نہ بڑھ جائے ۔ اور تعاقب کرنے سے بھی اس لیے روکا کہ ان کی کم تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی  تو وہ کہیں لوٹ کر ان پر حملہ نہ کردے ۔ 

رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی اس جنگی تدبیر اور عمل کو پسند فرما کر اس پر اللہ تعالٰی کا شکر آدا کیا ۔ 

جہاد عام حالات میں فرضِ کفایہ ہے

فرض کفایہ اصطلاحِ شرع میں اس فرض کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق ہر مسلمان کی ذات سے نہیں بلکہ پوری مسلم قوم سے ہے ۔ اسے فرض کا یہ حکم ہے کہ مسلمانوں سے چند آدمی اس فرض کو پورا کردیں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بھی آدا نہ کرے تو جن جن لوگوں کو اطلاع پہنچے اور قدرت کے باوجود ادا نہ کریں ، وہ سب گنہگار ہوں گے ۔

مثال کے طور پر مسلمان میت کی نمازِ جنازہ اور کفن دفن کا انتظام ہے کہ یہ فریضہ پوری قومکی ذمہ ہے ، عزیز قریب اور برادری کے لوگ اگر اس فریضے کو ادا کریں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہوگئے اور میت کا کوئی ایسا عزیز قریب موجود نہیں یاموجود ہوتے ہوئے عاجز ہے یاجان بوجھ کر غفلت کرتاہے تو محلے کے دوسرے لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اس  کو انجام دیں ۔محلے والے بھی نہ کریں تو شہر کے دوسرے لوگوں پرجن کو اطلاع ملے یہ فریضہ عائدکیا جائےگا ۔شہر والے بھی نہ کرے تو اس کے متصل دوسرے شہر والوں پر عائد ہوگا۔ اسی طرح اسلام کے جتنے بھی اجتماعی فرائض واجبات ہیں سب فرضِ کفایہ ہیں اور ان کا بھی یہی حکم ہے ۔

احکامِ دین کی تعلیم و تبلیغ ، ضرورت کے مطابق مسجدوں کی تعمیر اور دینی تعلیم کے مدرسوں کا قیام ،مختاجوں ، یتیموں اور غریبوں کی ضرورت پوری کرنے کےلیے مختاج خانے ، یتیم خانے وغیرہ قائم کرنا ، ناواقفوں کو احکام شرعیہ بتلانے کے لیے فتوی دینے کے کا اِنتظام ، امر بالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا انتظام ، اسلام کے خلاف اسلام کے دشمنوں یا گمراہوں کی طرف سے شبہات وتحریفات  کے جوابات کا انتظام  ، اسلام کا کلمہ بلند کرنے اور معاند دشمنوں کو زیر وزبر کرنے کے لیے جہاد ۔

یہ سب امور وہی ہیں جن کا تعلق پوری مسلم قوم سے ہے اور یہ اجتماعی فرائض ہیں ۔ ایسے فرائض کو عین حکمت کے مطابق حق تعالٰی نے ہر شخص پر فرضِ عین نہیں کیا بلکہ پوری قوم کے ذمہ لگا دیاہے تاکہ وہ تقسیم کے ذریعہ ان سب فرائض کو آسانی سے ادا بھی کرسکیں اور اپنی معاشی ضروریات اور عینی فرائض کی ادئیگی کےلیے بھی ان کو فرصت مل سکے ۔  

پوری قوم میں سے جس قدر آدمی ایک کام کی ضرورت کو پورا کر سکیں اور وہ اس کام کیں لگ جائیں تو باقی پوری قوم اس فریضہ سے سبکدوش ہوجاتی ہے ۔

بعض تعلیم دین کے لیے مدارس کا انتظام کریں۔ بعض فتویٰ اور تصنیف کی ضرورت پوری کریں ۔ بعض مساجد کے قیام وانتظام میں لگیں ، بعض یتیم خانے ، مختاج خانے ، شفاخانے وغیرہ بنانے کا کام کریں ۔ بعض قلم اور زبان کا جہاد کرکے مخالفین اسلام کے جوابات دیں ۔ بعض جہاد وقتال کے فرائض کو انجام دیں ۔

جہاد وقتال کے بارے میں حق تعالٰی کا واضح ارشاد ہے :۔

   فضل اللہُ المجاھِد ین باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجۃً  ط وکلاً وعداللہ ا لحسنی وفضل اللہ المجا ھدین علی القاعدین  اجراً عظیما  ط                                                                      

                                ( سورئہ نساء پ : 5 ۔ ع: 13 )

ترجمہ :۔ اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کا درجہ بہت بلند  بنایاہے جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر بیٹھنے والوں کے اور سب سے اللہ تعالٰی نے اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی  نے مجاہدین کو بمقابلہ گھر میں بیٹنے والں کے اجر عظیم دیا ہے ۔

اس آیت نے واضح طور پر بتلا دیاہے کہ اگر چہ جان ومال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے مگر جو لوگ دوسرے کاموں کی وجہ سے خود کو جہاد میں شریک نہ کرسکیں ان سے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ جہاد اپنی اصل عام قومی فرائض کی طرح فرض کفایہ ہے ۔ 

دو سر ی آیت  ماکانَ المؤمنونَ لینفرُوۡاکآ فۃ  میں بھی یہ بتلاگیاہےکہ جب بھی مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد کیلیےکافی ہوتوسب پرجہادواجب نہیں رہتا۔

 

فرضِ کفایہ بعض اَوقات فرضِ عین ہوجاتاہے،

اگرکوئی قومی فرض جوعلی الکفایہ سب کےذمہ فرض ہے،اسکےاداکرنیوالی کوئی جماعت موجودنہیں ہےیاموجودہوتے ہوئےسستی یاغفلت کررہی ہےیااس کی تعداداورسامان اس فریضےکی ادائیگی کےلیےکافی نہیں ہےتواُن سےقریب کےمسلمانوںپرفرضِ عین ہوجاتاہےکہ وہ اِس  فریضےکواداکریں اوراگراداکرنےوالوں کوجانی یامالی امدادکی ضرورت ہوتواس کوپورا کریں۔

قریب کے مسلمانوں نے  بھی غفلت برتی یا وہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہوئے تو ان سے قریب کے شہروں اور دیہات میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر فریضہ عائد ہو جا ئیگا ۔ اسی طرح جس قدر جانی یا مالی امداد کی ضرورت پیش آتی جائے گی ، نزدیک سے لے کر سب مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہو تا چلا جائے گا ۔ صرف بچے ، بوڑے ، بیمار ،نادار اور اپاہچ لوگ اس فرض سے مستثنٰی ہوں گے ۔                    (ہدایہ ، بدائع )

جہاد کب فرضِ عین ہوجاتا ہے ؟

جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ کردیں اور اس کی مدافعت کے لیے ملک کا مسلمان حاکم و امیر حکم عام جاری کرے کہ سب مسلمان جو قابلِ جہاد ہیں ، شریک ہوں ، تو سب پر جہاد کے لیے نکلنا فرضِ عین ہو جا تا ہے ۔ مدافعت کی ضرورت میں عورتوں پر بھی مقدور بھر مدافعت فرض ہو جاتی ہے ۔

غزوہ تبوک میں رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا ہی حکمِ عام جاری فرمایا تھا اسی  لیے جو لوگ اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان پر سزائیں جاری کی گئیں ۔

مسائل متفرقہ !

*  مسئلہ :۔ یہ ضروری نہیں کہ شہر کا  حاکم وامیر   جو اعلان جہاد کرے ، متقی ، پرہیزگار یا عالم ہی ہو ، جو بھی مسلمان حاکم ہو ، جب ایسے حکمِ عام کی ضرورت محسوس کرے، یہ حکم دے سکتا ہے ، اور سب مسلمانوں کو اس کا یہ حکم ماننا فرض ہے ۔ ( فتح ا لقدیر۔ ص : 280 ۔ ج: 4  )

فائدہ :۔ اس میں شبہ نہیں کہ امیرِ جہاد کا عالم ومتقی ہونا بہت بڑی نعمت ہے اور فتح کا بہت بڑا سامان ہے ۔ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  جب بھی کسی کو امیر ِ جہاد مقرر فرماتے تو اس کو وصیت فرماتےتھے کہ خود بھی تقوےٰ اختیار کریں اور اپنے سپاہیوں کو بھی اس کی تلقین کریں اوریہی مسلمان کا وہ اصلی جوہر ہے جو دنیاکے کسی طاقت سے مغلوب  نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ ہے مگر عملِ جہاد کے لیے شرط نہیں ۔  

جہاد ہرمسلمان  امیر وحاکم کے ساتھ ضروری اور اس کے جائز احکام کی تعمیل  واجب ہے ۔

*  مسئلہ :۔ جہاد جب فرضِ کفایہ ہو تو بیٹے کو ماں باب کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں کیونکہ ان کی خدمت اور اطاعت فرضِ عین ہے ۔ وہ فرض کفایہ کی وجہ سے ساقط نہیں ہوسکتی ۔

اسی طرح عورت کا شوہر کی اجا زت کے بغیر  جہاد کے کام میں لگنا جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صو رت میں جائز نہیں۔ البتہ اگر دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے مسلمان حاکم وقت سب کو جہاد میں لگنے کا حکم جاری کردے اور جھاد فرضِ عین ہوجائے تو پھر بیٹا ماں باپ کی اجازت کے بغیر، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اپنے اس فرض کو پوراکرے۔  (بدئع۔ ص : 98 ۔ ج: 7 )  

*    مسئلہ:۔ میدان جہاد سے بھاگنا انتہائی سخت گناہ اور غضبِ الہی کا سبب ہے ۔ قرآن کریم میں ہے :۔

یاا یھاا لذین اٰ منو اذا لقیتم الذین کفرو ا زحفاً فلا تولوھم الادبار ط

ترجمہ : اے ایمان والوں ! جنگ میں کافروں سے تمھارا مقابلہ ہو جائے تو ان سے پشت نہ پھیرو ۔

اور فرمایا گیا :۔

ومن یولِھم یومئذ ٍ دبرہٗ فقد باء بغضبٍ  من اللہِ ط

ترجمہ :۔ اور جس نے اس دن کافروں سے پشت پھیری تو اللہ کا غضب لے کر لوٹا۔

*  مسئلہ :۔ ہاں ! اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ مجاہدین کو حالات سے اس کا پورا اندازہ ہوجائے کہ اگر ہم اس وقت لڑیں گے تو ہم سب فناہ ہو جائے گے اور دشمن کو نقصان نہ پہنچا سکیں گے ۔ ایسے وقت ان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے کمک حاصل کرنے اور تیاری کے بعد لڑنے کی نیت سے اس وقت میدان چھوڑدیں اور  پھر دوسرے مسلمانوں کی امداد اور سامان کی تیاری کے ساتھ دوبارہ مقابلہ پر جائیں ۔ اس کا مدار مجاہدین کی تعداداور سامان کی کمی یا  زیادتی پر نہیں ، بلکہ محاذِ جنگ کے مجموعی حالات اورتجربہ پرہے۔تجربہ ہی سےاس کافیصلہ کیاجاسکتاہےکہ اس مقام پرلڑنامفیدہےیاپیچھےہٹنا۔قرآن مجیدمیںایسےہیحال کےمتعلق ارشادہے:۔

وَمَن یولھمۡ یومئذ ٍ دُبرَہ اِلاّمتحرِفاً لقتاَلٍ اَوۡمتحیزًااِلیٰ فئۃٍ فقدۡباَبغضبٍ منۡ اللہِ

ترجمہ:۔اورجس  نےاس دن کافروں سےپشت پھیری بجزجنگی چال کے،یامسلمانوں کےکسی گروہ سےملنےکےلیےتو اللہ کا غضب لےکرلوٹا۔

اس سےمعلوم ہواکہ جنگی تدبیرکےلیےیادوسرےمسلمانوں سےامدادحاصل کرنےکےلیےپیچھےہٹنےکی خاص حالات میں اجازت دی گئ ہے۔جب مقصودبھاگنانہ ہوبلکہ؛ دوبارہ؛ حملہ کرناہو۔

تنبیہ:۔صاحبِ بدائع نےفرمایاکہ اس سےیہ بھی معلوم ہوگیاکہ قرآنِ کریم میں یہ ارشادہے:۔

اِنۡ یکنۡ منکمۡ عشرُوۡنَ صاَ برُوۡنَ یغلبوۡاماِ ٔتینِ وَاِنۡ یکنۡ مأِۃ یغلبوۡااَلفاً۔

ترجمہ:۔اگرتم میں سےبیس آدمی ثابت قدم رہنےوالےہوں تودوسوپرغالب آجائیں گےاوراگرتم سوہوتوہزارپرغالب آجاؤگے۔

''یہ آیت منسوخ نہیں۔آج بھی ایساہوسکتاہے۔''چنانچہ پاکستان کےسابقہ جہادمیں خصوصاً لاہورکےمحاذپرتوایسامشاہدہ ہواکہ دشمن کوبھی اس سےانکارنہیں ہوسکتاکہ مسلمانوں کی بہت تھوڑی سی تعدادنےدشمن کی ٹڈی دل فوج کا حملہ روکااوراس پرفتح پائی۔

اگراس کاامکان غالب نظرآئےکہ تھوڑی تعدادیاکم سامان کےباوجودمسلمان غالب آسکتےہیں تومحض تعدادکی کمی کی وجہ سےپیٹھ پھرناجائزنہیں ہوگا۔

*  مسئلہ :۔ جو عورتیں ، بوڑھے یا بچے جنگ میں جاسوسی کا کام کریں یا دوسرے طریقوں سے جنگ میں حصہ لیں ، ان کو حالتِ جنگ میں قتل کیا جائے گا تاکہ ان کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں ۔

لیکن اگر بچے قید ہو جائے تو قید ہونے کے بعد ان کا قتل جائز نہیں ، خواہ انہوں نے جنگ میں کھلے طور پر حصہ لیاہو ، کیونکہ گرفتار کرنے کے بعد ان سے کوئی خطرہ نہیں رہا ۔ اب اگر قتل کیا جائے تو ان کے پچھلے عمل کی سزا میں قتل کیا جائے گا اور بچوں پر سزا جاری کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

*  مسئلہ:۔ جہاد میں اگر کسی مسلمان کا کافر باپ سامنے آجائے تو جب تک وہ حملہ نہ کرے بیٹے کو اس پر حملہ کرنا جائز نہیں ۔ کیونکہ قرآنِ کریم کی ہدایت یہ ہے کہ دنیا میں کافر ماں باپ کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرو، ان کی خدمت وخبر گیری کرو ۔ اس لیے جہاد کے وقت بھی ابتداً ان کا قتل کرنا جائز نہیں ۔

حضرت خنظلہ رضی اللہ عنہ (عنہم)  نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اپنے کافر باپ کے قتل کی اجازت مانگی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا ۔ البتہ اگر باپ ہی بیٹے پر حملہ کردے اور اس حملہ سے اپنی جان بچانا بغیر اس کے ممکن نہ ہو کہ باپ کو قتل کرے تو اسکو اپنی حفاظت کرنا چائیے ، خواہ اس میں باپ کا قتل ہی واقع ہو جائے مگر یہ باپ کو قتل کرنے کا ارادہ نہ کرے ۔ ( بدائع ، ص 102 ۔ ج 7 )

*  مسئلہ :۔ جہاد میں جانے کے وقت اپنے ساتھ قرآنِ کر یم تلاوت کے لیے ایسی صورت میں لیجانا جائز ہے جبکہ مسلمانوں کی قوت مستحکم ومظبوط ہو ، شہید یا قید  ہو نے کا خطرہ کم ہو اور جہاں یہ خطرہ قوی ہو تو قرآن کو اپنے ساتھ نہ رکھے ۔ اس میں بے ادبی کا خطرہ ہے ۔ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی زمین پر قرآنِ کریم لیجانے کو جو منع فرمایاہے ، وہ ایسی ہی حالت سے متعلق ہے ۔    ( بدائع )

*  مسئلہ :۔جنگی قیدی جو مسلمان کے ہاتھ آجائیں ، ان کو بھوک ، پیاس، وغیرہ کی تکلیف دینا جائز نہیں ۔ (بدائع )  

*    مسئلہ :۔ کافر قیدیوں سے اپنے مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کرلینا جائز ہے ۔ ( علیٰ قول الصاحبین ، بدائع )

* مسئلہ :۔ جہاد میں جن لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے ، ان کا بھی مثلہ کرنا  یعنی ناک، کان وغیرہ کاٹنا شرعاً جائز نہیں ۔ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا ہے ۔

* مسئلہ :۔ دشمن قلعہ بندی ہوجائے یا کسی محفوظ مکان میں داخل ہو کر دروازے بند کرلے تو اس کو ہتھیار ڈالنے اور اطاعت قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ اس کو نہ مانے تو آگ لگا کر یا پانی میں غرق کرکے یا دوسرے طریقوں سے قلعہ اور مکان کو منہدم کر دینا بھی جائز ہے ۔ (بدائع )

*  مسئلہ :۔ دشمن اگر قلعہ بند ہو جائے اور یہ معلوم ہو کہ دشمن کے ملازموں میں کچھ مسلمان بھی ہیں تو ان کی وجہ سے دشمن کے مقابلے میں کوئی رعایت نہ کی جائے گی البتہ اگرمسلمانوں کو بچا سکتے ہیں تو بچانے کی فکر کریں ، ورنہ دشمن کو تباہ کرنے کے قصد سے گولہ باری کریں ۔ جو مسلمان اس کی زَد میں بلا اختیار آجائیں وہ معاف ہے ،کیونکہ کافروں کاکوئی شہراور بستی اس سے خالی نہیں ہوتی کہ کوئی مسلمان قیدی یاملازم وغیرہ انکےپاس ہو،اگران کی رعایت سےدشمن کامقابلہ چھوڑدیا جائے توجہادکا دروازہ ہی بندہوجائے۔(بدائع ضائع،ص100،ج7)

*  مسئلہ:۔ یہی صورت اس وقت بھی کی جائے گی جبکہ دشمن اپنے آپ کو بچانے کے لیے مسلمان قیدیوں یا بچوں کو آگے کردے ۔ اس وقت بھی اگر مسلمانوں کو بچانے کی کوئی صورت نہ رہے تو دشمن پر حملہ کی نیت سے مقابلہ کیا جائے اور جو مسلمان اس کی زد میں آجائیں وہ معاف ہے ۔    (بدائع )

*  مسئلہ :۔ عین حالتِ جنگ وقتال میں بھی ایسے کافروں کو قتل کرنا جائز نہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے ۔ مثلاً چھوٹے بچے ، عورتیں ، بوڑھے ، اپاہج ، اندھے ، دیوانے ، مندروں اور عبادت خانوں میں مشغولِ عبادت رہنے والے ، بشرطیکہ وہ جنگ میں حصہ نہ لیں ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک میدانِ جنگ میں کسی کافر عورت کو مقتول پایا تو بہت افسوس کا اظہار فرما کر فرمایا کہ یہ تو جنگ کرنے والی نہ تھی ، اس کو کیوں قتل کیا گیا ؟

چہل40حدیث۔۔۔۔۔فضائل جہاد،

جہاد کے فضائل ومسائل سے متعلق رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قولی اور فعلی روایات حدیث اس کثرت سے منقول ہوئی ہیں کہ ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہو جائے ۔ اس جگہ ان میں سے صرف چالیس حدیثیں پیش کی جاتی ہیں ۔ اس عدد میں ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا ہے کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں  یاد کرکے میری امت کو پہنچا دے ، اس کا حشر قیامت کے دن علمائ مقبولین کے ساتھ ہوگا ۔ اس برکت کو لکنھے والا بھی حاصل کرسکتا ہے اور اس کو چھاپ کر شائع کرنے والابھی ۔

حدیث نمبر 1 :۔عن معاذ ا بن جبل فی حدیث طویل قال قال رسول ِ  صلی اللہ علیہ وسلم  رأس الامر الاسلام  وعمودہُ الصلوٰۃ وذروۃ سنا مہ الجھاد۔  ( رواہ احمد والترمذی از مشکوٰۃ )

ترجمہ :۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (عنہم) ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت فرماتے ہیں کہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاکہ ''اصل کام اسلام ہے اور اسلام کا عمود جس پر اس کی تعمیر قائم ہے ، نماز ہے اور اس کا اعلی مقام جہاد ہے"۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے  کہ مسلمانوں کی عزّت وقوت جہاد پر موقوف ہے ۔ جب وہ جہاد چھوڑدیں گے ، ذلیل اور کمزور ہوجائیں گے ۔

حدیث نمبر 2 عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول    صلی اللہ علیہ وسلم  مثل المجاھدین فی سبیلاللہ کمثل الصائم ا لقائم ا لقانت بآیات اللہ لا یفتر من صیام ولا صلوٰۃ حتٰی یرجع المجا ھدین فی سبیل اللہ ۔ ( بخاری ومسلم )    

ترجمہ:۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ کے لیے جہادکرنیوالے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مسلسل روزے رکھتا رہے اور رات بھر تہجد کی نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے ۔ نہ کسی دن روزہ میں سستی کرے اور نہ کسی رات نماز میں ، اور مجاہد کو یہ فضلیت اس وقت تک برابر حاصل رہے گی جب تک وہ لوٹ کر اپنے گھر نہ آجاوے ۔

حدیث نمبر 3عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال مر رجل من اصحاب رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  بشعب فیہ عینیۃ من مأ عذبۃفاعجبتہ فقال لوا عتر لت الناس فا قمت فی ھذا الشعب فذکر ذٰلک  لر سول  صلی اللہ علیہ وسلم  فقال لا تفعل فان مقام احدکم فی سبیل اللہ افضل من صلوٰۃ فی بیتہ سبعین عاماً الا تحبون ان یغفر اللہ لکم ویدخلکم الجنۃ اغزو فی سبیل اللہ من قاتل فی سبیل اللہ فواق ناقۃ وجبت لہ ا لجنۃ (  ترمذی )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک صحابی ایک پہاڑی درہ میں ایک چشمہ پر پہنچے چشمہ میٹھا اور صاف دیکھ کر ان کو پسند آیا  اور دل میں کہا کہ یہ جگہ عبادت کے لیے بہت اچھی ہے۔ میں لوگوں سے الگ ہو کر یہیں قیام کرلوں ۔ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس نے خیال کا ذکر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کیا ۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، ''ایسا نہ کرو ! اس لیے کہ ایک شخص کا اللہ کے راستہ ( جہاد میں کھڑاہونا اپنے گھر میں رہ کر ستر سال کی نماز سے بہتر ہے ۔ کیا تم نہیں چاہتے  کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ۔ جو شخص اللہ کی راہ  میں جہاد کرتا ہے  تھوڑی دیر بھی ، اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔''

فائدہ :۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ضرورت کے وقت خلوت میں بیٹھ کرعبادت کرنے سے جہاد میں حصہ لینا بدرجہا بہتر ہے ۔

حدیث نمبر 4 عن ابی ا مامۃ رضی اللہ عنہ (عنہم)  والذی نفس محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  بیدہ لغدٰوۃ اوروحۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما فیھا ولمقام احدکم فی الصف خیر من صلوتہ ستین سنۃ ( رواہ احمد )   

ترجمہ :۔ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی جان ہے ، اللہ کے راستہ ( جہاد میں ایک مرتبہ صبح  یا شام کو نکلنا ساری دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بدر جہا بہتر ہے اور ایک شخص کا جہاد صف میں کھڑا ہونا گھر میں بیٹھ کر ساٹھ برس کی نمازوں سے بہتر ہے ۔

حدیث نمبر 5عن عبداللہ  بن عمروان رضی اللہ عنہ (عنہم) رسول اللہ      صلی اللہ علیہ وسلم  قال قفلۃ کغزوۃ۔ ( رواہ ابوداؤد)

ترجمہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا کہ جہاد سے واپسی کے سفر میں بھی وہی ثواب ملتاہے  جوجہاد  کے لیے جانے کے وقت ملتا ہے ۔

حدیث نمبر 6 وعن ابی موسی رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ     صلی اللہ علیہ وسلم  ان ابواب الجنۃ تحت  ظلال السیوف ، فقام رجل رث الھئیۃ  فقال یا اَبا موسیٰ انت سمعت رسول اللہ      صلی اللہ علیہ وسلم  یقول ھذا قال نعم فرجع الیٰ اصحابہ فقال اقرأ علیکم اسلام ثم کسر جفن سیفہ فالقاہ ثم مشیٰ بسیفہ الی العدو فضرب بہ حتیٰ قتل ۔۔۔۔۔(رواہُ مسلم )

ترجمہ :۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (عنہم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جنت کے دروازے تلواروں کے سایہ میں ہیں ۔

یہ سن کر ایک خستہ حال آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے ابو موسٰی ! آپ نے خود رسول اللہ      صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ ارشاد سنا ہے ؟ انھوں نے فرمایہ کہ ہاں ! یہ شخص فوراً اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا اور ان کو آخری سلام کیا اور اپنی تلوار کی میان توڑ کر پھینک دی۔ننگی تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ  پڑا اور مسلسل لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا۔

حدیث نمبر7 :وعن ابی ھریرۃ  رضی اللہ عنہ (عنہم) ان رسول اللہ     صلی اللہ علیہ وسلم  قال عرض علی اول ثلثہ یدخلون الجنۃ شھید وعضیف متعفف وعبد احسن عبادۃ اللہ ونصح لموالیہ(رواہ الترمذی)

ترجمہ : رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میرے سامنے وہ تین آدمی پیش کئے گئے (غالباً شبِ معراج میں) جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اول شہید فی سبیل اللہ۔دوسرے وہ متقی پرہیزگارجوکوشش کرکے ہر گناہ سے بچتا ہے۔ تیسرے وہ غلام جس نے اللہ تعالٰی کی عبادت بھی خوب کی اور اپنے آقاؤں کی خدمت وخیرخواہی میں بھی کوتاہی نہیں کی۔

 

 

حد یث نمبر 8 : عن عبدا للہ بن حبشی ان ا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم  ای الا عما ل افضل قا ل طو ل القیا م قیل فا ی   ا  لصد قتہ افضل قا ل  جھد ا لمقل قیل فا ی الھجر ت ا فضل قال من ھجر ما حر م اللہ علیہ قیل فا ی الجھاد ا فضل قا ل من جا ھد ا لمشر کین  بما  لہ و نفسہ قیل فا ی ا لقتل اشر ف قا ل من اھر  یق د مہ و عقر جوا دہ (رواہ ابو دؤد)

تر جمہ: نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوا ل کیا گیا کہ عبا دت میں سب سے افضل کو ن سا عمل ھے ؟ فرما یا کہ (نفل نما ز میں) طو یل قیا م۔پھر سوا ل کیا گیا کہ صد قہ کو نسا افضل ہے؟تو آپ نے فر مایا کہ مفلس آدمی جو اپنی مزدو ری میں سے خرچ کرے ۔ پھر سوال کیا گیا کہ ہجرت کونسی افضل ہے ؟ تو آپ نے فرما یا اس شخص کی ہجرت افضل ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑدے جس کواللہ نے حرام کیا ہے ۔

پھر سوال کیا گیاکہ جہاد کون سا افضل ہے؟تو فرمایا جس نے اپنی جان اور مال کے ساتھ مشرکین سے جہاد کیا۔پھر سوال کیا گیا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا کون سا افضل واشرف ہے؟تو فرمایا کہ جس شخص کا اپنا بھی خون بھا دیا گیا اور اس کا گھوڑا بھی مار دیا گیا۔

     حدیث نمبر9 :عن کعب بن مرۃ  رضی اللہ عنہ (عنہم) فی حدیث مرفوع من بلغ العدو بسھم رفعہ اللہ بہ درجہ قال ابن النجار یا رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم  وما الدرجہ ؟ قال أما انھالیست بعتبۃ امّک ولکن بین الدرجتین مائۃ عام  ( رواہ النسانی)

ترجمہ:۔ رسول کریم    صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرما یاکہ جو شخص دشمن کو ایک تیر مارے گا تو اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کے درجات میں ایک درجہ کا اضافہ فرمادیں گے ۔ ابن بخار رضی اللہ عنہ (عنہم) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! درجہ سے کیا مراد ہےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ارے ! درجہ کا مطلب تمھاری ماں کی دہلیز ہونے سے تو رہا ، نلکہ دو  درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے ۔

حدیث نمبر 10 : وعن انس رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسولاللہ    صلی اللہ علیہ وسلم  لغدوۃ فی سبیل اللہ وروحۃ خیر من الدنیا وما فیھا ۔    ( مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا  کہ ایک صبح کو اللہ کی راہ میں نکلنا اور ایک شام کو اللہ کی راہ میں (جہاد) میں نکلنا ساری دنیا اور اسکی تمام دولتوں اور نعمتوں سے بہترہے  ۔  

حدیث نمبر 1 1عن ابی سعید رضی اللہ عنہ (عنہم) ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بعث بعثانی بنی لحیان من ھذیل فقال لیبعث من کل رجلین احدھما والاجر بینھما( رواہ مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجاھدین کا ایک لشکر قبیلہ ہذیل کی شاخ بنی لحیان کے مقابلے کے لیے بھیجا اور جہاد کے لیے نکلنے والے صحابہ کرام کو یہ حکم دیا کہ ہر دو مردوں میں سے ایک مرد جہاد کے لیےجائے ، ایک گھر کی ضرویات  وغیرہ کے لیے یہا رہ جائے اور اس طرح کرنے سے جہاد کا ثواب دونوںمیں مشترک ہو جائے گا۔''

                  

شہری دفاع کی خدمت بھی جہاد ہی ہے

 

اس حدیث سے معلو م ہوا کہ جہا د صر ف محا ذجنگ پر جا کر لڑ نے ہی کا  نام نہیں، جو لو گ اپنے اور دوسر ے مسلما نو ں کے گھروں کی حفا ظت کے قصدسےشھر میں رہ جائیںوہ بھی مجاھد ہیں۔ کیونکہ محاذ پر لڑنے والے سپاہیوں کی وہ امداد کر رہے ہیں کہ ان کے اہل و عیال اور گھر بار کی حفاظت کر کے ان کو بے فکر کر دیا ہے۔ہمارے ملک میں شہری دفاع کی خدمت انجام دینے والے جو بھی خدمت انجام دیتے ہیں وہ بھی اللہ کے نزدیک مجاہدین کے حکم میں ہیں۔

جہادکی نیّت

حدیث نمبر 12:۔ عن ابی ھریرہ  رضی اللہ عنہ (عنہم)  قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لا یکلم احد فی سبیل اللہ واللہ یعلم من یکلم فی سبیل اللہ الاجاء یوم القیامۃ و جرحہ یثعب وما اللون  لون الدم والریح ریح المسک( بخاری، مسلم)

ترجمہ: رسول اللہ  (ص) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی ہو جائے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا ہے،تو وه قيامت كے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہ رہا ہوگا۔وہ صورت میں تو خون ہوگا مگر اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔

فائدہ:اس حدیث میں جو یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا۔اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس شخص کی نیت ،نام و نمود اور شہرت کی یا کسی اور دنیوی مفاد کے لیے لڑنے کی ہو اور زخمی ہو جائے،وہ اللہ کی راہ میں زخمی نہیں ہوا۔اس کو یہ فضیلت نہیں ملےگی  بلکہ یہ فضیلت خاص اس شخص کا حق ہے جواسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور اسلامی ملک سے دشمنانِ دین کی مدافعت کی نیت سے لڑتا ہے۔

حدیث نمبر13:عن ابی موسٰی  رضی اللہ عنہ (عنہم)  قال جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال الرجل یقاتل للمغنم والرجل وقاتل للذکر والرجل یقاتل لیری مکانہ فی سبیل اللہ قال من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء فھو فی سبیل اللہ۔(بخاری ومسلم)

ترجمہ: ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی آیااورعرض کیا(جہادمیںلوگ مختلف نیّتوں سےشریک ہوتےہیں)ایک شخص اس نیت سےجہادمیں شریک ہوتاہےکہ مالِ غنیمت میں حصہ ملےگا۔ایک شخص اس لیےجہادکرتاہےکہ دنیامیں اسکاچرچاہوگااورتاریخ میں یادگارباقی رہےگی۔ایک شخص اس لیےجہادکرتاہےکہ دنیاکےلوگ یہ محسوس کرلیں کہ یہ اسلام کابڑاخدمت گزارااورجانثارہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکہ اللہ کی راہ میں جہادکرنےوالاان میں سےصرف وہ ہےجواس نیت سےجہادکرےکہ اللہ کاکلمہ بلند ہواوراُس کےدشمن زیرہوں۔

                            رباط یعنی اِسلامی سرحدوں کی حفاظت

حدیث نمبر14وعن سھل بن سعد   رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  رباط یوم خیرمن  الدنیاوماعلیھا۔(بخاری ومسلم)

ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکہ ایک دن کارباط ''یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کاکام ساری دنیااورجوکچھ اس میں ہے،ان سب سےبھتر ہے۔

حدیث نمبر15:۔عن فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ (عنہم)عن رسول صلی اللہ علیہ وسلم قال کل میت یختم علیٰ عملہ الاالذی مات مرابطاًفی سبیل اللہ فانہ ینمی لہ عملہ الیٰ یوم القیامۃ ویأمن من فتنۃ القبر(ترمذی،ابوداؤد،دارمی)

ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ ہرمرنےوالےکےعمل پرمہرلگادی جاتی ہے۔مرنےکےبعداس کےعمل میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ،بجزاس شخص کےجواللہ کی راہ میں کسی سرحدکی نگرانی کرتےہوئےمرگیاتواس  کاعمل قیامت تک اس کے اعمال نامےمیں بڑھایاجاتارہےگااورقبرکےسوال و جواب سےبھی آزادرہےگا۔

حدیث نمبر 16 عن سلمان الفارسی قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یقول رباط یوم ولیلۃ فی سببیل اللہ خیرمن صیام شہر وقیامہ وان مات اجری علیہ عملہ الذی کان یعلمہ واجری علیہ رزقہ وامن الفتان (مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ایک دن رات کا رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کی خدمت انجام دینا ایک مہینے کے  مسلسل روزے اور ساری رات نماز تہجد سے افضل ہے اور جو شخص اس حال میں یعنی کسی اسلامی سرحد کی حفاظت کی حالت میں مرجائے تو قیامت تک اس کے تمام نیک عمل ، جو وہ روزانہ کیا کرتا تھا ، برابر اس کے نامئہ اعمال میں لکھےجاتے رہیں گےاور اس کا رزق للہ کی طرف سے جاری رہے گا اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔

حدیث نمبر 17عن ابی عباس قال قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عینان لا تمسھا النار عین بکت من خشیۃ اللہ وعین باتت تحرس فی سبیل اللہ ۔  

              تر جمہ :۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ار شا د فر مایا کہ دو2 آنکھیں ایسی ہیں کہ انھیں آگ نہیں چھوئے گی۔ایک  وہ آنکھ جو اللہ کے خو ف سے رو ئی ہو ۔دو سری وہ آنکھ جس نے جہا د فی سبیل اللہ میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو۔

رینجرزپولیس کےلیےعظیم الشان بشارت

 آج کل سرحدوں کی حفاظت کرنے والی پولیس جن کو رینجرز کہتے ہے ، ان میں سے بہت سے آدمی اس کو محض ایک نوکری سمجھ  کرانجام دیتےہیں،اگروہ رسولٖ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس ارشادکوسامنےرکھیں اوریہ خدمت اس عظیم ثواب کی نیّت سےانجام دیں تو نوکری کےساتھ یہ عظیم الشان دولت بھی ان کوحاصل ہوگی۔ ان کو اپنی اور خانگی ضرورتوں کے لیے ان کو جو تنخواہ ملتی ہےوہ اس ثواب سے ان کو محروم نہ کرے گی ۔ شرط یہی ہے کہ  اس خدمت کی انجام دہی میں اصل نیت ''رباط'' یعنی اسلامی سرحد کو دشمنانِ دین سے محفوظ رکھنے کی ہو ۔

حدیث نمبر 18عن ابن عباس رفعہ لا اخبرکم بخیرالناس منزلا قلنا بلیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل اخذ برأس فرسہ فی سبیل اللہ حتیٰ یعود اویقتل الا اخبرکم باالذی یلیہ قلنا نعم یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل معتزل فی شعب من اشعب یقیم اصلوۃ ویؤتی الزکوۃ ویعتزل الناس شرہ او اخبرکم بشرالناس قلنا نعم یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم قال الذی یسئل با اللہ ولا یعطی بہ (مالک ۔ ترمذی ۔ نسائی)

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ سب انسانوں سے ذیادہ اچھا مقام اللہ کے نزدیک کس کا ہے ؟ وہ شخص جو اپنا گھوڑا لے کر اللہ کی راہ میں کسی اسلامی سرحد کی حفاظت میں لگ گیا اور یہی مقیم رہا یہاں تک کہ مرجائے یا قتل کردیا جائے ۔ پھر فرمایا  کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ اس شخص کے قریب کس کا درجہ ہے ؟  صحابہ نے عرض کیا ضرور فرمایئے ۔ فرمایا جو کسی پہاڑ کی گھائی جا کر مقیم ہو گیا اور نماز اور زکوۃٰ ادا کرتا ، لوگوں کو اپنی ایذاؤں سے بچایا ۔ پھر فرمایا تمھیں سب سے بد ترین آدمی کا پتہ دوں؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ وہ شخص دوسروں سے اللہ کے نام پر مانگتا ہے مگر جب کوئی اس سے اللہ کےنام پر مانگے تو اسےکچھ نہیں دیتا ۔

                                                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔             

  

 

 

شہید فی سبیل اللہ کا مقام

اور اس کے درجات

حدیث نمبر 19 :۔ عن انس قال قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مامن احد یدخل الجنۃ یحب ان یرجع الی الدنیا ولہ ما فی الارض من شئی الااشہید یتمنٰی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامۃ ۔ (بخاری و  مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا  کہ کوئی شخص جو جنت میں داخل ہوجائے اور پھر اسکو یہ کہا جائے کہ تو لوٹ کر دنیا میں چلا جا ، ساری دنیا کی حکومت ودولت تجھے دے دی جائے گی تووہ کبھی جنت سے نکل کر دوبارہ دنیا میں آنے پرراضی نہ ہوگا ، بجزشہید  کے جو یہ تمنا ظاہر کرے گا کہ مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ میں پھر جہاد کرکے شہید ہوں ۔ اسی طرح دس مرتبہ زندہ کرکے دنیا میں بھیجا جاؤں ، پھر شہیدہوکر آؤں ۔ کیونکہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا بڑے اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کرے گا ( جو کسی اور عمل کا نہیں ہے) ۔

حدیث نمبر 20قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لو ددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی اقتل ثم احیی ثم اقتل ۔ ( بخاری و مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میری تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جا ئے ، پھر قتل کیا جا ؤں ، پھر زندہ کردیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کر دیا جائے   ،  پھر قتل کیا جاؤں ۔

                                          شہید کے تین درجے

حدیث نمبر 21عن عقبہ بن عبد السلمی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القتلی ثلثہ مؤمن جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ فاذا لقی الحدو قاتل حتی یقتل قال النبی  صلی اللہ علیہ وسلم فیہ فذالک الشھید الممتحن فی خیمۃ اللہ تحت عرشہ لا یفضلہ النبیون الا یالنبوۃ ومؤمن خالط عملا صالحاً وآ خر سیئاً جاھد بنفسہ وما لہ فی سبیل اللہ اذالقی العدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم مصمصۃ محت ذنوبہ وخطایاہ ان السیف محاء للخطایا واد خل الجنۃ من ای باب شاء ومنافق جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ اذا لقی العدو وقاتل حتی یقتل فذلک فی النار ان السیف لا یمحو النفاق۔ ( دارمی از مشکوۃٰ)    

 ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جہادمیں قتل ہونےوالےتین طرح کےآدمی ہیں۔ایک وہ شخص ہےجوخودمؤمن کامل،صالح ہے۔اس کےساتھ اس نےاللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہادکیااورجب دشمن سےاس کامقابلہ ہوا تو ڈٹ کرلڑایہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کےبارےمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ یہی وہ اصل شہیداورامتحان میں کامیاب ہےجوقیامت کےدن عرشِ رحمنٰ کےنیچےخیمہ میں ہوگااورانبیاء سےاس کامقام صرف اتناہی کم ہوگاجودرجئہ نبوّت کاتقاضاہے۔ دوسراوہ شخص ہےجومؤمن مسلمان توہےمگرعمل میں کچھ نیک کام کیے،کچھ برُےکیے،پھراس نے اپنی جان ومال سےاللہ کی راہ میں جہادکیااوردشمن کےمقابلےمیں لڑا،یہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اس کاجہادمصمصہ(یعنی سینگ کی طرح چوس کرفاسدمادہ نکالنےوالا)ہےجس نےاس کے سب گناہوں کومٹادیا۔اورتلوارسب خطاؤں کومٹادینےوالی ہے۔یہ شخص جس دروازےسےچاہےجنت میں داخل ہوسکےگا۔تیسرا وہ منا فق ہے جس نے اپنی جان و ما ل سے جہا د کیا اور دشمن سے لڑ کر مقتو ل ہو گیا (مگرنیت خا لص اللہ کےلیے نہیں تھی) یہ جہنم میں جا ئےگا ، کیو نکہ تلوا ر کفر ونفا ق کو نہیں مٹا سکتی۔             

مجاہد اپنی موت مرجائے تو بھی شہید ہے

حدیث نمبر 22عن ابی سھل بن حنیف قال قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم من سأل اللہ الشہادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشہادۃ وان مات علیٰ فراشہ  (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو  شخص سچے دل سے اللہ تعالٰی سے شہید ہونے کی دعا مانگے تو اس کو اللہ تعالےٰ شہیدوں ہی کے مرتبے پر پہنچادے گا ، اگر چہ وہ اپنے بسترپر مرے۔

حدیث نمبر 23 عن ابی مالک الاشعری قال سمعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم یقول من فصل فی سبیل اللہ فمات اوقتل او وقصہ فرسہ او لعبیرہ او لد غتہ ھامۃ اومات علیٰ فراشہ بای حتف شاء اللہ فانہ شہیدو ان لہ الجنۃ ۔ (ابوداؤد)

ترجمہ:۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا کہ جو شخص جہاد کے لیے نکلا ، پھر اسکو موت آگئی یا کسی نے قتل کردیا ،یا سواری سے گر کر مر گیا ،یا کسی زہریلےجانور نے کاٹ لیا یا اپنے بستر پر کسی مرض میں مر گیا تووہ بھی شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے

۔

 

مال اور زبان سے بھی جہاد ہوتا ہے

حدیث نمبر 24عن انس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال جاھدوا المشرکین  باموالکم وانفسکم والسنتکم (رواہ ابو داؤد والنسائی والدارمی )

ترجمہ :۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ مشرکین کے خلاف جہاد کرو اپنے مالوں سے ، اپنی جانوں سے اپنی زبانوں سے۔

مال کا جہاد تو یہ ہے کہ جہاد کے کاموں میں مال صرف کیا جائے ،اور زبان کا جہاد یہ کپ لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے کر اس پر آمادہ کریں اور جہاد کے احکام بتلائیں اور یہ بھی کہ پنی گفتگو اور تقریر سے دشمن کو مرعوب کرے ۔ ایسی نظمیں جن سے مسلمانوں میں جذبہ جہاد قوی ہو ، یا جن سے دشمنوں کی تذلیل ہو ، وہ بھی اس جہاد میں شامل ہیں ۔جیسے حضرت حسان ثابت رضی اللہ عنہ (عنہم) جو شعرائے صحابہ میں سے ہیں ، ان کی نظمیں جو مشرکین مکہ کے مقابلہ پر کہی گئی ہیں ، ان کو جہاد قرار دیا گیا ہے ،

اور قلم سے لکھنا بھی زبان سے بولنے کے قائم مقام ہونے کے سبب اسی حکم میں ہے ۔

 

جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کا ثوابِ عظیم

 

حدیث نمبر 25عن  حزیم بن فائتک قال قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم من انفق نفقۃً فی سبیل اللہ کتب لہ بسبع مائۃ ضعف ۔ (الترمذی والنسائی )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں کچھ مال خرچ کرتا ہے تو سات سو گنا لکھا جاتا ہے ۔ یعنی ایک روپیہ خرچ کرے تو سات سو روپیہ خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔

حدیث نمبر 26وعن ابی الدرداء وابی ھریرہ وابی امامہ وعبد اللہ بن عمر وجابر  بن عبد اللہ وعمران بن حصین رضی اللہ عنہ (عنہم) کلھم یحدث عن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال من ارسل نفقۃ فی سبیل اللہ واقام فی بیتہ فلہ بکل درھم سبع مائۃ درھم ومن غزا بنفسہ فی سبیل اللہ وانفق فی وجھہ ذٰلک فلہ بکل درھم سبع مائۃ الف درھم (ابن ماجہ)

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس شخص نے جہاد کے لیے کچھ مال خرچ کیا مگر خود جہاد میں نہیں گیا اس کو ایک درہم پر سات سو درہم کے برابر ثواب ملے گا اور جس نے خود جہاد بھی کیا اور اس میں اپنا مال بھی خرچ کیا تو اس کے ایک درہم کا ثواب سات لاکھ درہم کے برابر  ہوگا ۔

حدیث نمبر  27عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (عنہم) سئل النبی  صلی اللہ علیہ وسلم ای الصدقۃ افضل قال اخدام عبد فی سبیل اللہ او اظلال فسطاط فی سبیل اللہ (ترمذی)

ترجمہ:۔ کسی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا کہ سب سے افضل صدقہ کونسا ہے ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جہاد کے لیے کو ئی غلام دے دینا یا مجاہدین پر سایہ کرنے کے لیے کوئی خیمہ بطورِ عاریت کے دے دے۔

ہندوستان پر جہاد کی خاص اہمیّت اور فضائِل

حدیث نمبر28: عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال وعدنا النبی صلی اللہ علیہ وسلم عزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی ومالی فان قتلت کنت افضل الشہداء وان رجعت فانا ابوھریرۃ المحرر (نسائی)

ترجمہ: حضرت ابوھریرہ  رضی اللہ عنہ (عنہم)  فرماتے ہیں  کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے  ہندوستان کے جہاد کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اگر میں نے اپنی زندگی میں اس کو پا لیا تواپنا سارا زور اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا، پھر اگر میں قتل کردیا گیا تو افضل الشہداء ہو جاؤں گا اور اگر زندہ لوٹا تو میں جہنم سے آزاد ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) ہوں گا۔

فائدہ: حضرت ابوھریرہ  رضی اللہ عنہ (عنہم)   کے بیان سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان  کے جہاد میں شریک ہونے والوں  کے لیے یہ عظیم الشان خوشخبری دی ہے کہ جو شخص اس جہاد میں شریک ہو جائیگا وہ افضل الشہداء ہوگا اور جو زندہ واپس آجائےگا وہ عذاب الہی سےآزاد قراردیا جائےگا۔

ہندوستان کے جہاد کی خاص فضیلت کا بیان جیسے حضرت ابوھریرہ  رضی اللہ عنہ (عنہم)  کی اس حدیث میں ہے اسی طرح ایک دوسری حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا متن یہ ہے:

حدیث نمبر29:و عن ثوبان رفعہ عصابتان من امتی اجارھم اللہ من النار عصابۃ الغزوۃ الہند و عصابۃ تکون مع عیسٰی ابن مریم( اوسط، طبرانی)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو جماعتیں میری امت میں ایسی ہیں جن کے لیے اللہ تعالٰی نے جہنّم سے نجاد لکھ دی ہے۔ ایک وہ جماعت جو ہندوستان پر جہاد کرےگی۔دوسری وہ جماعت جو آخر زمانہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بعد ان کے ساتھ ہوگی۔

 

 

ہندوستان کے جہاد سے کونسا جہاد مُراد ہے؟

ان دونوں حدیثوں میں جو فضائل غزوہ ہند کے ارشاد فرمائے گئے ہیں اس میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے  کہ  ہندوستان پر جہاد تو پہلی صدی ہجری سے لیکر آج تک محتلف زمانوں میں ہوتے رہیں ہیں، اور سب سے پہلا سندھ کی طرف سے محمد بن قاسم کا جہادہے جس میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور اکثر تابعیں کی شرکت نقل کی جاتی ہے۔ تو کیا اس مراد پہلا جہاد ہے یا جتنے جہاد ہوچکے ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب اس میں شامل ہے؟

الفاظ حدیث میں غور کرنے سے حاصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث عام ہیں۔ اس کو کسی خاص جہاد کے ساتھ مخصوص و مقیّدکرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے جتنے جہاد ہندوستان میں محتلف زمانوں میں ہوتے رہے وہ بھی اور پاکستان کا حالیہ جہاد بھی  اور آئندہ جو جہاد ہندوستان کے کفار کے خلاف ہوگا وہ سب اس عظیم الشان بشارت میں شامل ہیں۔

                        واللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم

 

            

 

ترکِ جہاد کی وعید اور دنیا میں اُس کاوبال

حدیث نمبر 30 :۔عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من مات ولم یغزو لم یحدث بہ نفسہ مات علےٰ شعبۃ من النفاق (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا اور نہ اپنے دل ہی میں جہاد کا ارادہ کیا وہ ایک قسم کی نفاق پر مرے گا ۔

حدیث نمبر 31وعن ابی امامۃ عن النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  قال من لم یغزو او یجھز غاز یا او یخلف غاز یانی اھلہ بخیر اصابہ اللہ بقارعۃ قبل القیامہ (رواہ ابوداؤد )

ترجمہ:۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا ، نہ کسی مجاہد کو سامانِ جہاد دیا ،  اور نہ کبھی کسی مجاہدِ فی سبیل اللہ کی یہ خدمت انجام دی کہ اس کے اہل وعیال کی نگرانی بلا کسی غرضِ دنیوی کے پوری طرح کی تو قیامت سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی اس پر عذاب نازل فرمائیں گے ۔

ترکِ جہاد مصائب کو دعوت دینا ہے

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جہاد میں کسی نہ کسی طرح حصہ ضرور لے۔ اگر محاذ پرجا کر لڑنے کی قوت و قدرت نہیں تو مجاہدین کو سامان فر ہم کرنے میں حصہ لے ، اور یہ بھی نہ ہوسکے تو مجاہدین کے اہل وعیال کی خدمت خالص اللہ کے لیے دنیوی اغراض سے پاک ہوکر کرے اور جو لوگ جہاد کے کسی کام میں حصہ نہ لیں وہ خدا کے عذاب اور مصا ئب  کو دعوت دیتے ہیں

کچھ عجب نہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں کو جو اللہ تعالٰی نے جہاد میں حصہ لینے کایہ موقع عطا فرمایا ہے ،اگر ہم اس کی اہمیت کو محسوس کر کے آگے بھی جہاد کی تیاری کو نہ چھوڑیں تو ہم پر جو آفات ومصائب طوفانوں اور دوسرے صورتوں سے آئے دن مسلط رہتے ہیں اس کی برکت سے اللہ تعالٰی پورے پاکستان کو ان سے نجات عطا فرمائیں ۔

حدیث نمبر 32وعن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  من لقی اللہ اثر من جہاد لقی اللہ وفیہ ثلمۃ ( رواہ الترمذی وابن ماجہ )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص قیامت کے روز اللہ کے سامنے اس طرح حا ضر ہوگا کہ اس کے بدن پر کوئی نشان جہاد کا نہ ہو تو وہ ایک عیب کے ساتھ اللہ سے  ملے گا ۔

جہاد کے لیےاسلحہ اور جنگی سامان بنانا اور مہیا کرنا بھی جہاد ہے

حدیث نمبر 33عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) قال سمعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم وھو علی المنبر یقول واعدّ وا لھم ما استطعتم من قوۃ الاان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی ۔ (رواہ مسلم )  

ترجمہ:۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم)   فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر یہ فرماتے ہوئے پایا کہ قرآنِ کریم کی آیت میں جو مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلے کے لیے قوت بہم پہنچانے کا حکم ہے ،  یہ قوت تیر اندازی ہے ۔  یہ بات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین مرتبہ مکرر کرکے فرمائی ۔

فائدہ:۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں چونکہ جنگ ہی تیر اور تلوارکی تھی اس لیے تیر اندازی اور نشانہ کی مشق واستعداد ہی کو قوت فرمایا ۔ مگر اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب جنگ توپوں اور بموں کی ہو توان کے استعمال کے طر یقے  ہی جنگی قوت قرار دئیے جائیں گے اور حکم قرآنی کی تعمیل انھی طاقتوں کی فراہمی سے ہوگی۔

حدیث نمبر 34عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  من احتبس فرساً فی سبیل اللہ ایمانا باللہ وتصدیقا بوعدہ فان شبعہ وریہ وروثہ  وبولہ فہ المیزان یومالقیامہ ۔ (رواہ البخاری)

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس شخص  نے اللہ کی راہ میں کوئی گھوڑا جہاد کے لیے وقف کردیا اللہ پر ایمان اور اس سے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے ، تو اس گھوڑے کا کھانا پینا ، لیداور پیشاب کرنا سب کا ثواب قیامت کے دن اس کی میزانِ عمل میں رکھا جائے گا ۔

حدیث نمبر 35عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) قال سمعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یقول ان اللہ یدخل بالسھم الواحد ثلث نفرفی الجنۃ صانعہ یحتسب فی صنعتہ الخیر والرامی بہ ومنبلہ فارمواوارکبو او ان ترمو ااحب الی من ان ترکبوا (ترمذی)

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی ایک تیر کی خاطر تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریگا ۔ اول اس کا بہ نیت ثواب وجہاد بنانے والا، دوسرا اس کو جہاد میں استعمال کرنے والا، تیسرا اس کی نوک اور بھال کو درست کرنے والا۔ اس لیے تیر اندازی کیا کرو اور گھوڑے کی سواری کی مشق کرو، اور میرے نزدیک تیر اندازی کی مشق گھوڑے کی سواری کی مشق سے ذیادہ بہتر ہے ۔

کسی غازی کو جہادکے لیے سامان دینا یا

اس کے گھر کی خبر گیری

کرنا بھی جہادہے

حدیث نمبر 36 عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (عنہم) وقال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   للغازی اجرہ وللجاعل اجرہ واجرالغازی۔ (رواہ ابو داؤد)

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ غازی کو تو اس کے غزوہ اور جہاد کا ثواب ملتاہےاور جس شخص نے اس کو مال دےکر جہاد کے لیے بھیجا ہے ، اس کو اپنے مال کا ثواب بھی ملے گا اور غازی کے عمل کا بھی ۔

دفاعی فنڈمیں چندہ کا ثوابِ عظیم

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کرنے والے فو  جیوں کی تنخواہ یا دوسرے سامان کے لیے مال خرچ کرنے والے بھی ان مجاہدین کے جہاد کا ثواب پاویں گے ۔

حدیث نمبر 37 وعن زید بن رضی اللہ عنہ (عنہم) خالد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من جھّز غازیا فی سبیل اللہ فقد غزی ومن خلف غازیا فی اھلہ فقد غزی ۔(بخاری و مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غازی کو جہاد کا سامان دے دیا اس نے بھی جہاد کیا اور جو شخص کسی غازی کے گھر والوں کی نگرانی اور خبر گیری میں لگا رہا اس نے بھی جہاد کر لیا ۔

جہاد سے ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے مگر قرض اور

امانت میں خیانت معاف نہیں ہوتی

حدیث نمبر 38 :۔وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ (عنہم) القتل فی سبیل اللہ یکفر الذنوب کلھا الامانۃ والامانۃ فی الصلوۃ والصوم والا مانۃ  فی الحدیث واشد ذٰلک الوداع (کبیر طبرانی )

ترجمہ:۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا سب گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے مگر امانت میں خیانت معاف نہیں ہوتی ، پھر فرمایا کہ صرف مال ہی میں نہیں بلکہ نماز ، روزے اور کلام میں بھی ہے ۔ البتہ ان سب میں زیادہ سخت وہ امانت ِ اموال ہے جو کسی کے سپرد کی گئی ہو۔

حدیث نمبر 39عن عبد اللہ بن عمربن العاص ان النبی  صلی اللہ علیہ وسلم قال القتل فی سبیل اللہ یکفر کل شی الاالدین ۔

ترجمہ:۔نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں مگر جو کسی کاقرض اس کے ذمہ ہے وہ معاف نہیں ہوتا (اس کو یا خود ادا کرے یا وصیت ادا کرنے کی کسی معتمد کو کردے )۔

بحری فوج کے لیے عظیم سعادت !

حدیث نمبر 40عن انس رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حرس لیلۃ علی ساحل البحر کان افضل من عبادۃ فی اھلہ الف سنۃ (رواہ الموصلی بلین)

ترجمہ:۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک رات سمندر کے کنارے پر پہرہ  دے تو اس کا  یہ عمل اپنے گھر میں ایک ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے ۔

 

جہاد کی دعائیں !

زمانہ جنگ کی !

چند مختصر دعائیں لکھی جاتی ہیں جن کا زبانی یاد کرلینا بھی مشکل نہیں ۔ یہ سب دعائیں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی تعلیم فرمائی ہوئی ہیں اور دین ودنیا کی فلاح کے لیے بہترین اور مجرب نسخہ ہیں ۔

دشمن کے بالمقابل مؤثر ترین ہتھیار !

ایک موقع پر کائنات کے سب سے بڑے اور سب سے سچے انسان سیدالرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

(لااد لکم ماینجیکم من عدوکم ویدرکم ارزاقکم تدعون اللہ فی لیلکم ونھارکم فان الد عاء سلاح المؤمن۔(الحاکم فی المستدرک وابو یعلی)۔

ترجمہ:۔کیا میں تمھیں اسیے رازسے آگاہ  نہ کروں جو تمھیں تمھارے دشمن  سے نجات دلائے اور تمھاری معثیت میں اضافہ کا سبب ہو ؟  وہ راز یہ ہے کہ تم را ت دن اللہ تعالٰی سے دعاکرو ۔ دعا مؤمن کا اسلحہ ہے ۔

یہ اسلحہ ہر گھر میں ، ہر فرد ،بغیر کسی مادی  ذرائع کے ہر وقت تیار کرسکتا ہے اور اس اسلحہ کی اثرانگیزی کی شہادت خدا کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ارشاد گرامی سے بھی دے رہے ہیں اور  آپ نے ہر شدید ترین  مرحلہ پر اس ہتھیار  سے کام لیا ہے اور خدائے ذوالجلال نے اس ہتھیار سے آپ کی امت کے لاکھوں سپہ سالاروں اور کروڑوں فوجیوں کو کامیابی بھی عطا فرمائی ہے ۔

 

اس حد یث کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں :۔

الدعاء المؤمن وعمادالدین ونورالسموات والارض ۔  (مستدرک )

ترجمہ:۔ دعا مؤمن کا اسلحہ ہے دین کا ستون ہے ، آسمان وزمین کا نور ہے ۔

اور تاریخ شاہد ہے کہ اہل ایمان نے جب بھی دین کے اس ستون کا سہارا لیا اور جب دعا کی شمع جلا کر یہ میدان جنگ میں کودے ہیں ، آسمان وزمین کی ساری قوتیں ان کی حمایت میں کفار سے لڑنے لگیں اور بلآخر انھیں کامیابی اور فتح حاصل ہوئی ۔

                                                                     

 

یقین بھرے دل سے دعائیں کرو !

سیدالا نبیاءصلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں '' اللہ تعالٰی سے اس کیفیت میں دعائیں کرو  کہ تم ان کی قبو لیت پر یقین رکھتے ہو ، تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالٰی لا پرواہ ، متوجہ نہ ہونے والے اور دعا کی قبولیت پر یقین نہ رکھنے والے دل کی دعاکو قبول نہیں فرماتے ۔         (ترمذی ، مشکوٰ  ۃ )

ضعفِ قلب اور بزدلی کا علاج !

1اَلَھُمَّ اِنِیّ اَعُوذ بِکَ  مِنَ الۡجُۡبِن وَاعُوۡذ ُبِکَ مِنَ ا لبخل واعوذ بک من ارذ ل العمر واعوذ بک من فتنۃ الدنیا وعذاب القبر ۔ 

   ترجمہ :۔ میرے اللہ میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخل سے اور میں پناہ طلب کرتا ہوں نا کار ہ عمر سے اور دنیا کے فتنوں اور آزمائشوں سے اور پناہ مانگتا ہوں عذابِ قبر سے ۔

2 حَسۡبِیَ اللہُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ عَلَیۡہِ تَوَکَلۡتُ وَھُوَ رَبُّ الۡعَرۡش الۡعَظِیۡمِ ۔

ترجمہ :۔ کافی ہے مجھے اللہ جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔مین اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں  اور وہی ہےعرشِ عظیم کا رب ۔

3حَسۡبِیَ اللہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ نِعۡمَ الۡمَولٰٰی وَ نِعۡمَ النِّصِیۡرُ۔

ترجمہ:۔ کافی ہے مجھے اللہ بہت اچھا وکیل ،بہت بہتر سر پرست سب سے بہتر مدد گار ۔

4یَا حَیُّ یَا قَیُوۡمُ   بِرَحۡمَتِکَ اَستَغِیۡثُ ۔

ترجمہ:۔ اے ہمیشہ زندہ رہنے والے اے سدا قائم ودائم ۔ میں تیری رحمت کے سہارے  تجھ سے فریاد کرتا ہوں ۔

5لاَ حَوۡلَ وَلاَ قُوِّۃَ اِلاِّ باِاللہِ الۡعَلِیّ الۡعَظِیۡمِ ۔

ترجمہ :۔حالات کو بدلنے کی اور ہر قسم کی قوت صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو بہت بلند شان اور عظمتوں کا مالک ہے ۔

6الَلَّھُمَّ لاَ ماَنِعَ لِماَ اَعۡطَیۡتَ وَلاَ مُعۡطِیَ لِماَ مَنَعَتۡ وَلاَ رَادَّ لِماَ قَضَیۡتَ وَلاَ یَنۡفَعُ ذَالۡجَدّ مِنۡکَ الۡجَدَّ۔

ترجمہ:۔اے اللہ ! جسے آپ کچھ عطا فرمانا چاہیں اسے کوئی محروم نہیں کرسکتا ۔ جسے آپ محروم کر یں اسے دینے والا کوئی نہیں جس بات کا آپ فیصلہ صادر کریں اسے رد کرنے کی قوت کسی میں نہیں اور کوئی بڑی سے بڑی عظمت ودولت والا ایسا نہیں جسے یہ دولت وعظمت آپ کے عذاب سے محفوظ  رکھ سکے ۔

جب اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کریں !

اَللَّھُمَّ رَحۡمَتِکَ اَرۡجُوۡ فَلاَ تَکِلنیۡ   اِلٰی نَفۡسِیۡ طَرفَۃَ عَیۡن وَاَصلِحۡ شَأنِیۡ کُلَّہُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنۡتَ ۔

ترجمہ:۔ میرے اللہ! میں آپ ہی کی رحمت کا امیدوارہوں ۔ آپ مجھے ایک لمحہ کے لیے میرے نفس کے سپرد نہ کیجیو اور میرے احوال وظروف کی اصلاح فرمائیو ۔ آپ تنہا رب ومعبود ہیں ۔

خداکی پناہ کا قلعہ !

حضرت عبد اللہ اسلمیٰ رضی اللہ عنہ (عنہم) نے فرمایا کہ ہم ایک عمرہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھے ۔ بادوباراں کاطوفان شروع ہوا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  راستہ سے ہٹ کر ایک ٹیلے کے نیچے قیام فرمایا اور رات بھر نماز میں مشغول رہے ۔صبح کو عبد للہ اسلمی رضی اللہ عنہ (عنہم) کے قریب پہنچے تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر ،قل ھو اللہ احد، قل اعوذبرب الفلق ،قل اعوذبرب الناس پڑھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ جو شخص ان سورتوں کو پڑھ کر اللہ کی پناہ لےگا اسکو کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی ۔(رواہ البزاز ورجالہ رجال الصحیح از مجمع الزوائد )     

     سورہ اخلاص  :۔ قُلۡ ھُوَاللہُ اَحَد ہ اَللہُ الصَّمَدُ  ہ لَمۡ یَلِد  ہ  وَلَمۡ یُوۡلَدۡ  ہ  وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہُ کُفُواً اَحَدۡ  ہ

ترجمہ :۔ کہو اللہ تنہا ہے ، وہ بے نیاز ہے ، نہ اس کی  اولادہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی اسکا کوئی مثیل ہے ۔ وہ بے مثال اور اکیلا ہے ۔

سورہ الفلق قُلۡ اَعُوۡذُبِرَبِ الۡفَلَق ہ مِنۡ شَرّ ِ مَا خَلَقَ ہ وَمِنۡ شَرّ غاَ سِق اِذاَ وَقَبَ ہ وَمِنۡ شَرَّ النََّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ ہ وَمِنۡ شَرّحاَسِدٍ اذاَ حَسَدَ ہ

ترجمہ :۔ کہو ، میں پناہ طلب کرتا ہوں اس رب کی جو پَو  پھٹنے کا رب ہے ۔ (کھجور کی گٹھلی اور گندم کے دانے ایٹم کے پٹھنے کا رب ۔یعنی کائنات کی چھوٹی اور بڑی قوت حتٰی کہ ایٹم بم بھی اس کے قبضہ وتصرف میں ہے اور اسی کے اِذن سے وہ کسی کو ضرر پہنچاسکتا ہے ۔اگر اذن نہ ہو تو وہ محض بیکار اور قطعی بے ضرر ہو سکتا ہے )  ہراس چیز کی برائی سےجو اس نے پیداکی ، رات کی تاریکی میں آنے والے (حوادث، ہوائی حملوں اور دشمن کے مکرو فریب )سے جب کہ رات پوری طرح چھا جائے ۔ ان کے شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جو بندھی ہوئی اشیاء اور دھاگے کی گرہوں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کررہا ہو ۔

سورہ والناس:۔قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِ الناَّسِ ہ مَلِکِ النَاسِ ہ اِلٰہِ النَاسِ ہ مِنۡ شَرّالۡوَسۡوَاسِ الۡخَنَّاسِ ہ الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِالنَاسِ ہ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَالنَاسِ ہ

ترجمہ :۔ کہیے میں پناہ طلب کرتا ہو سارے انسانوں کے رب سے جو سب کا معبود وحاکم ہے (کوئی بھی ہو خواہ کتنا بڑا سرکش ، زور آور اور کافرہی کیو ں نہ ہو اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ) ان سب کے شر سے جو وسوسہ اندازی کرنے والے ہیں جو دلوں میں توہمات اوروساوس   پیدا کرتے ہیں (کہ تم شکست کھاؤ گے اور تمھارا کوئی پرسانِ حال نہ ہو گا) یہ (شر انگیز )انسانوں میں سے بھی ہے اور جنّوں میںسے بھی ۔''

جب خطرات منڈلارہےہوں :۔الَلَّھُمَّ اِنِیّ اَعُوۡذُ بِکَ مِنۡ زَوَالِ نِعۡمَتَکَ وَتَحَوَّلَ عَافِیِتِکَ وَفُجَاءَۃِ نِقۡمَتِکَ وَجَمِیۡعِ سَخَطِکَ

ترجمہ :۔ اے اللہ ! میں پناہ طلب کرتا ہوں آپ کی نعمت کے زوال  سے اور آپکی عطا فرمودہ عافیت کے(مصیبت سے) بدل جانے سے ، اور آپ کی ناگہانی عتاب سے اور ہر قسم کی ناراضگی سے ۔

جب دشمن کی قوّت سے گھبراہٹ ہو:۔غزوہ خندق کے دن صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! اب تو دل منھ کو آنے لگے (سخت گھبراہٹ طاری ہے) کوئی دعا اس وقت کے لیے بھی ہے ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں !یہ دعا مانگو :۔

اَلَّھُمَ اسۡتُرۡعَوۡ رَاَتِنَا وَاٰمِن رَدۡعاَتِنَا ،

ترجمہ :۔ اے اللہ !ہمارے کمزور پہلوؤں پر پردہ ڈالیے اور خطرات سے محفوظ رکھئیے ۔

صحابہ رضی اللہ عنہ (عنہم) کہتے ہیں کہ ہم نے یہ دعا مانگی تو اللہ تعالٰی  نے ایسی ہوا بھجیی جس  نے کفار کا منھ موڑ دیا ۔

میدان ِ جنگ میں مجاہدین کی دعائیں :۔اسلام دین  کامل ہے اور اسکے کمال کا ایک پہلوں یہ بھی  ہے کہ  وہ زندگی کے ہر مرحلہ میں انسان کی توجہ اس کے خدا کی جانب مبذول کرتا ہے ۔ ان ہی مراحل میں ایک مرحلہ '' میدانِ جنگ میں کودنے کا بھی ہے ۔ چونکہ مسلمان کی جنگ خداکے لیے ہوتی ہے ، اس لیے یہ جنگ بہت بڑا ذریعہ ہے  قلبِ مؤمن کے خداکی جانب متوجہ ہونے کا ۔ قرآنِ مجیدنے اہل ایمان کو تلقین فرمائی ہے کہ:۔

یَا اَیُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡ اِذَا لَقِیۡتُمۡ فئَۃ ً فَاثۡبُتُوۡ ا وَاذۡکُرُوۡاللہَ کَثِیۡراً لَعَلَّکُمۡ تُفلِحُوۡنَ ہ

ترجمہ:۔  اے ایمان والوں ! جب تم دشمن کے بالمقابل میدان میں آؤ تو ثابت قدم رہو  اور اللہ کو بکثرت یاد کرلینا تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو ۔

عین معرکہ قتال میں اللہ کو بکثرت یاد کرنا کامیابی کا ضامن ہے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ اس امت نے ہر معرکہ قتال میں کیا ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے اولین اور فیصلہ کن معرکہ بدر سے اب تک مسلمانوں نے جتنے مواقعِ جہاد میں کامیابی حاصل کی ہے وہ شجاعت ، ایثار ، فدویت اور راہ حق میں قربان ہونے کے حیرت انگیز  جذبہ کی معجزہ نمائیوں کی مرہونِ منت تو کسی نہ کسی درجہ میں ہےلیکن اس سے کہیں ذیادہ دخل اس کامیابی میں اس حقیقت کو  ہے کہ مسلمانوں  نے عین معرکہ  قتل میں خدائے قدوس کو اس کثرت سے یاد کیا ہے کہ خدا تعالٰے کی رحمت انکی جانب منعطف ہوئی اور انہیں تعداد کی قلت اور اسلحہ کی کمی کے باوجود انکے دشمنوں پر غلبہ  عطا کیا گیا ۔

مجاہدین کے مصروفِ جہاد وقتال ہونے کے ارادہ سے لے کر فتح وکامرانی تک کے ہر  مرحلہ کے لیے حضور  اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے دعائیں منقول ہیں ۔

شرِ دشمن سے حفاظت کے لیے :۔

1:۔ اَعُوۡذُ بِوَجۡہِ اللہِ الۡعَظِیۡمِ الّذِیۡ لَیۡسَ شَیۡئُ اَعۡظ۔مَ وَ بِکَلِمَا تِ اللہِ اتَّامَّاتِ الّتِیۡ لاَ یُجَاوِزۡھُنّ بَرُّوَلاَ فَاجِرُُُ وَّ بِاَسۡمَاءِ اللہِ الۡحُسۡنٰی مَا عَلِمۡتُ مِنۡھَا وَمَالَمۡ اَعلَمۡ مِنۡ شَرّ مَا خَلَقَ وذَرأَ وَبَرَأَ ۔

ترجمہ:۔ میں عظمتوں کے مالک اللہ کی ذات اقدس سے پناہ طلب کرتا ہو ں جس سے کوئی  بھی چیز   بڑی نہیں اوراللہ کے کامل ترین کلمات کی پناہ چاہتاہوں جن سے کوئی بھی نیک وبد متجاوز نہیں ہوسکتا اور میں اللہ کے اسمائے حسنٰی کے توسط سے پناہ مانگتا ہوں ان تمام فتنوں ، حوادث اور مصیبتوں سے جو میرے علم میں ہیں اور جو میں نہیں جا نتا ہوں ان تمام قوتوں کے شر سے جو اللہ نے پیدا کی ہیں ۔

  ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جہاد کرنے والی جماعت میں بھیجا  اور حکم دیا کہ ہم حسب ذیل آیات پڑھا کر  یں ۔ ہم یہ آیات پڑھتے رہے ۔  دشمن کے ہاتھوں قتل ہونے سے محفوظ بھی رہے اور ہمیں مالِ غنیمت بھی ملا۔ وہ آیات یہ ہیں :۔

3اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنّمَا خَلَقۡنَا کُمۡ عَبَثاً وَاَنّکُمۡ اِلَیۡنَا لاَ تُرۡجَعُوۡنَ ہ فَتَعَالَی اللہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ لاَ اِلَہَ اِلاَّ ھُوَرَبُّ الۡعَرۡشِ لۡکَرِیۡمِ ط وَمَنۡ یَدۡعُ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ لاَ بُرۡھَانَ لَہ بِہِ فَاِنَّمَاحِسَابُہ عِندَ رَبِہِ  اِنَّۃُ لاَ یُفلحُ الۡکَافِرُوۡنَ ہ وَ قُلۡ رّبّ اغۡفَر وارحَمۡ وَاَنۡتَ خَیۡرُالرَاحِمِیۡنَ ہ

ترجمہ :۔ کیا تم اس خیال میں مگن ہو کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا  کیا  ؟ اور کہ تم ہماری جانب نہیں لوٹائے جاؤگے ۔ ( تو واضح رہے) اللہ کی شان سب سے بلند ہے وہ ( تمام کائنات کا ) برحق بادشاہ ہے ۔ اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں اور نہ کوئی جس سے مشکلات کے وقت پناہ طلب کی جائے ۔ وہی عرشِ عظیم کا رب ہے اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارتا ہے جس کے معبود ہونےکی کوئی دلیل موجود نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے ہاں ہوگا اور سچ یہ ہے کہ کافر کبھی فلاح نہیں پائیں گے ۔ اور تم کہو کہ اے ہمارے رب  ہما رےگناہوں کو معاف فرمادے اور   رحم فرما آپ سب سے بہتر رحم کرنے والے ہیں ( اخرجہ ابن السنی وابو نعیم وابن مندہ) ۔

میدانِ جنگ میں قدم رکھنے پر :۔جب خدا کی راہ میں قدم رکھنے والا میدانِ جنگ میں قدم رکھے تو خشوع وخضوع سے اپنے رب سے عرض کرے :۔

1 الَلَّھُمَّ مُنزِلَ الۡکِتَابَ سَرِیۡعَ الۡحِسَابَ الَلّھُمّ اھۡزِمِ الاَحۡزَابَ اَلّھُمّ احۡزِمۡھُمۡ وِلۡزِلۡھُمۡ۔

ترجمہ :۔ اے اللہ ! کتاب کو نا زل فر ما نے والے!جلد حساب لینے والے !اےاللہ (دشمن کے ) لشکر وں کو شکستِ فا ش دے ۔ اے اِلہ حق !انھیں شکست دے اور ان کے قدم اکھاڑ  دے ۔

2الَلّھُمَّ اِنّاَ نَجۡعَلُکَ فِیۡ نُحُوۡرِِھِمۡ وَ نَعُوذُ بِکَ مَنۡ شُرُوۡرِھِمۡ ۔

ترجمہ :۔ اے اللہ ! ہم آپ کو دشمنوں کے بالمقابل لاتے ہیں  اور انکے شر و فساد سے آپ کی پناہ مانگتے ہیں ۔

قنوتِ نازلہ

احادیث صحیحہ میں ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی شدیدحادثہ پیش  آتا تھا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نمازوں میں مسلمانوں کی حفاظت اور دشمنوں پر فتح کےلیے دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے ۔ شرح منیہ میں ہے کہ یہ قنوت نازلہ اب بھی مسنون ہے ، درمختار شامی میں ہے ،قنوت نازلہ ہر مصیبت عامہ اور جنگ و جہاد کے لیے اب بھی مستحب ہے ۔ اس وقت جبکہ سارا عالمِ اسلام مصائب وآلام میں مبتلا ہے خصوصاً پا کستان کے سرحدات پر اعدائے اسلام نے بھر پور حملے شورع کردئیے  مناسب ہے کہ مسلمان اسلام اور پاکستان کی حفاظت کے لیے دعائے قنوت پڑھا کرے ۔صبح کی نماز  کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد امام بآوازِ  بلند یہ دعا پڑھے اور مقتدی  آمین کہتے رہیں ۔اس دعا کےلیے نہ تکبیر کہی جائے نہ ہاتھ اٹھائے جائیں  ۔دعا کے بعد تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ سجدے میں جائیں ۔

    

 

  الَلّھُمَ اھۡدِنَا فِیۡمَنۡ ھَدَیتَ ہ وَعَافِنَا فِیۡمَنۡ عَافَیۡتَ

      

     یااللہ راہ دکھاہم کو ان لوگوں میں جن کو تو نے راہ دکھائی  اور عافیت دے ہم کو ان لوگوں میں جن کو تونے عافیت بخشی     

  وَ تَوَلّنَا فَیۡمَنۡ  تَوَلّیۡتَ ہ وَبَارِکۡ لَنَا فِیۡمَا اَعۡطَیۡتَ ہ وَقِنَا شَرُ مَا

 اور کار سازی کر ان لوگوں میں جنکےآپ کاسازہیں  اور برکت دے اس چیز میں جو آپ نے ہم کو عطا فرمائی اور بچاہم کو اس چیز کے شر سےجسکو        

   قَضَیۡتَ ہ فَاِنَّکَ تَقۡضِیۡ وَلاَ یُقۡضٰی عَلَیۡکَ ہ اِنَّہُ لاَ یَعِزُّ     

          آپ نے مقدر فرمایا  کیونکہ فیصلہ کرنیوالے آپ ہی ہیں آپ کے خلاف نہیں کیا جاسکتا   بیشک آپ کا دشمن عزت  

مَنۡ عَادَیۡتَ ہ وَلاَ یَذِلُّ مَنۡ وَّالَیۡتَ ہ تَبَارَکۡتَ رَبَُنَا وَتَعَالَیۡتَ ہ

               نہیںپاسکتا  اور آپ کا دوست ذلیل نہیں ہوسکتا  برکت والے ہیں آپ ہمارےپروردگاراوربلندوبالاہیں         

  الَلَّھُمَّ اغۡفِرۡ لِلۡمُئومِنِیۡنَ وَالۡمُئومِنَاتِ ہ وَالۡمُسۡلِمِیۡنَ

یا اللہ مغفرت فرما مؤمن مردوں اور عورتوں کی اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں کے گناہ معاف فرما اور انکے حالات کی اصلاح فرما

وَالۡمُسۡلِمَاتِ ہ وَاَصۡلِحۡھُمۡ وَاَصۡلِحۡ ذَاتَ بَیۡنَھُمۡ ہ وَاَلّفۡ بَیۡنَ قُلُوۡبَھِمۡ ہ

    اوران کے باہمی تعلقات کو درست فرمادے اور ان کے دلوں میں  الفتِ باہمی اور محبت  پیدا  کردے

  وَاَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِھِمُ الایۡمَانَ وَالۡحِکۡمَۃَ ہ وَثَبّتۡھُمۡ  

  اور ان کے دلوں میں ایمان   و حکمت  کو قائم   فرمادے اور ان کو  اپنے رسول

عَلٰی مِلّۃَ رَسُوۡلِکۡ ہ وَاَرۡزِعۡھُمۡ اَنۡ یّشۡکُرُوۡ نِعۡمَتِکَ الَّتَیۡ

    کے دین   پر  ثابت  قدم  فرما  اور توفیق دے   انھیں کہ شکر کریں  تیری اس نعمت کا  جو تو نے انھیں دی ہے  اور یہ کہ

اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ ہ وَاَنۡ یُّوفُوۡ بِعَھۡدِکَ الَّذِیۡ عَاھَدۡتَّھمۡ عَلَیۡہِ ہ وَانۡصرۡھُمۡ 

     وہ پورا کرے             تیرا وہ عہد جو تو نے ان سے لیا   اور غلبہ عطاکر ان کو اپنے   دشمن پراور      اور ان   

عَلٰی عَدُوّکَ وَعَدُوّھِمۡ ہ اِلٰہَ الۡحَقّ سُبۡحَانَکَ لاَ اِلٰہَ غَیۡرُکَ ہ

    کے   دشمن  پر                                 اے معبود برحق تیری ذات پاک ہے اور تیرے سوا  کوئی  معبود  نہیں            

اَللِّھُمِّ انۡصُرۡعَسَاکِرَ بَاکِسۡتَانَ ہ وَالۡعَنۡ کَفَرَۃَ الۡھِنۡدِوَاشُّیُوۡعِیّیۡنَ

      یا اللہ پاکستان کی فوج کی مدد فرما          اور ہندوستان کے کفار اور اشتراکیوں پر اپنی لعنت فرما جو آپ کے  رسولوں       

اَلِّذِیۡنَ یُکَذّبُوۡنَ رُسُلَکَ وَیُقَاتِلُوۡنَ اَوۡ لِیَائَکَ ہ الَلِّھُمَّ خَالِفۡ بَیۡنَ

     کی تکذ یب  کرتے ہیں اور  آپکے  دوستوں سے مقابلہ  کرتے  ہیں        یا اللہ اُنکے آپس میں   اختلاف ڈال دے

کَلِمَتِھِمۡ ہ وَفَرّقۡ جَمۡعَھُمۡ ہ وَشَتتۡ شَملھُمۡ ہ وَزَلۡزِِلۡ  

اور  ان  کے         دلوں  میں                 مسلمانوں                           کا رعب                                   ڈال دے

اَقۡدَامَھُمۡ ہ وَاَلۡقِ فِیۡ قُلُوۡبِھِمُ ارۡعۡبَ ہ وَخُذۡ ھُمۡ اَخۡذَ عَزِیۡزٍ

  اور    ان   کو     ایسے    عذاب    میں   پکڑ لے جس میں           قوت    و قدرت          والا   پکڑ   تا  ہے

مُقۡتَدِرٍ ہ وَاَنۡزِلۡ بِھِمۡ بَأسَکَ الَّذِیۡ لاَ تَرُدُّہُ عَنِ الۡقَوۡمِ

   اور ا ن  پر  وہ    عذاب   نازل  فرما      جس کو   آپ  مجرم            قوموں  سے اٹھا یا                     نہیں کرتے۔

الۡمُجۡرِمِیۡنَ ہ

                                                               بندہ محمد شفیع 6 شِوال

                                                                                       1391ھ

 

 

 

 

 

                                                                          

عملِ  جہاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افادات مفتی اعظم پاکستان مولانامفتی محمد شفیع صاحب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مرتب

جناب محمد ارشد صاحب

 

 

 

 

   مسلمانوں کی تباہی کا سبب !

قرآن وسنت  کی نصوص نیز پوری   تاریخ اسلام  کا تجربہ  شاہد ہے  کہ جب بھی مسلمان جہاد چھوڑ دیتے ہیں تو دوسری قومیں ان پر غالب آجاتی ہیں ۔ ان کے دل ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر ان کی (مسلمانوں ) آپس میں پھوٹ پڑجاتی ہے ۔ وہ جذبہ  شجاعت وحمیت جو کفار کے مقابلہ میں صرف ہونا  چاہیئے تھا ۔ وہ آپس میں صرف ہونے لگتا ہے ۔ اور یہی ان کی تباہی کا سبب ہے ۔(جہاد ص 6 )

جہاد وغزوات کی حکمت !

کسی قابل ناحق کو قصاصاً قتل کرنا یا کسی چور کو سزا دینا یا کسی بدمعاش کو مار پیٹ کرنا  ، ڈاکؤں کے منظم گروہ سے جنگ کرکے ان کو جرم سے روکنا یا ختم کرنا اگر چہ بظاہر کچھ  انسانوں کو تکلیف میں ڈالنا یا ضائع  کردینا ہے ۔ مگر یہ کسی سمجھدار انسان کے نزدیک عام دنیا کے امن وسلامتی کے منافی  نہیں ۔ بلکہ عام انسانوں کے امن وسلامتی اور سلامت اطمینان کا واحد ذریعہ  ہے ۔ اگر چند جرائم پیشہ لوگوں کو سزا دے کر تکلیف میں نہ ڈالا جائے تو پوری انسانیت کا امن وسکون برباد ہو جاتا  ہے ۔ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے جہاد وغزوات اور آپ کے قائم کردہ حدود تعزیرات سب اسی حقیقت پر مبنی ہیں ۔  جو اصلاح حال  کی ساری تدبیروں سے مایوس ہو جانے کے بعد  آخری علاج کے طور پر عمل میں لائی گئی ہے ۔

وہ ڈاکٹر اپنے فن کا ماہر نہیں ہو سکتا جو صرف  مرہم لگانا جانتا ہے ۔ مگر سڑے ہوئے فاسد شدہ اعضاء کا آپریشن کرنا نہیں جانتا ۔

کوئی عرب کے ساتھ ہو یا ہو عجم کے ساتھ                                                                                                           کچھ بھی نہیں ہے تیغ نہ ہو  جب قلم کے ساتھ

سمجھو اور خوب سمجھو کہ جب عالم کے جسم میں شرک کے زہریلے جراثیم پیدا ہو گئے اور وہ ایک مریض جسم کی طرح  ہوگیا  تو رحمت خداوندی نے اس کے لیے ایک مصلح اور مشفق طبیب (آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بھیجا جس نے ترپین سال تک متواتر اس کے ہر عضو اور ہر رگ وریشہ کی اصلاح کی فکر کی ۔  جس سے قابل اصلاح اعضاء تندرست   ہو گئے ۔ مگر بعض اعضاء جو با لکل سڑ چکے تھے کہ ان کی اصلاح کی کوئی صورت نہ رہی بلکہ خطرہ ہو گیا کہ ان کی سمیت تمام بدن میں سرایت کر جائے ۔ اس لیے حکیمانہ اصول کے موافق عین رحمت وحکمت کا مقتضا  یہی تھا کہ آپریشن کرکے ان اعضاء کو کاٹ دیا جائے ۔ یہی جہاد کی حقیقت ہے ۔اور یہی تمام جارحانہ (یعنی اقدامی ) اور مدافعانہ غزوات کا مقصد ہے ۔

کچھ متعصب کہنے لکے کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے ۔ اور یہ ایسا جھوٹ ہے کہ شاید آسمان کے سائے میں ایسا بڑا جھوٹ کوئی نہ بولا گیا ہو ۔ یہ بھی تو سوچئے کہ تلوار  تو جھبی چلی ہو گی ۔ جب تلوار چلانے والوں کا کوئی جتھہ کوئی قوت پیدا ہو ئی ہوگی ۔ تو کوئی پوچھے کہ ان تلوار چلانے والوں کو کس تلوار نے اسلام کا ایسا فدائی بنا دیا تھاکہ سر کو کفن باندھ کر ہر میدان میں سر بکف نطر آتے تھے  ۔حقیقت یہ ہے کہ سفید جھوٹ کی تردید کرنا بھی سچ کی توہین ہے ۔  (رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ص22 )    

حکم جہاد !

مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار  کے مظالم کا یہ حال تھا کہ کوئی دن خالی نہ جاتا تھا کہ کوئی مسلمان ان کے دست ستم سے زخمی اور چوٹ کھایا ہوانہ آتا ہو ۔   قیام مکہ کے آخر دور میں مسلمانوں کی تعداد بھی خاصی ہو چکی تھی وہ کفار کے ظلم وجبر کی شکایت اور ان کے مقابلے میں قتل وقتال کی  اجازت مانگتے تھے ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جواب فرماتے کہ صبر کرو ۔  مجھے ابھی تک قتال کی اجازت نہیں دی گئی ۔ یہ سلسلہ دس سال تک اسی طرح جاری رہا ۔  

جس وقت رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  وطن مکہ چھوڑنے اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (عنہم)   آپ کے رفیق تھے تو مکہ مکرمہ سےنکلتے وقت آپ کی زبان سے نکلا  ۔ اخرجوا نبیّھم لیھلکن ۔ یعنی ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالاہے' ۔اب ان کی ہلاکت کاوقت آگیا ہے ۔ اس پر مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد یہ آیت ۔اذن للذین  یقٰتلون بانھم  ظلمو ، وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر(39:22) ، نازل ہوئی ۔ جس میں مسلمانوں کو کفار سے قتال کی اجازت دے دی گئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ (عنہم) نے فرمایا کہ یہ پہلی آیت ہے جو قتال  کفار کے معاملہ میں نازل ہوئی جبکہ اس سے پہلے ستر سےزیادہ آیتوں میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا ۔ (معارف القرآن ۔ ص 275 ج 6 )

اس پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد وقتال ممنوع تھا ۔ اس وقت کی تمام آیت قرآنی میں مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اورعفوو درگزر کی ہی تلقین تھی ۔ ہجرت مدینہ کے بعد سب سےپہلے اس آیت وقاتلو افی سبیل اللہ  الذین یقاتلونکم ولا تعتدو ا الخ        (2 : 190 )

میں قتال    کفار کا حکم آیا ۔ اور صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ (عنہم)  سے روایت یہ بھی ہے کہ قتال کفار کے متعلق پہلی آیت یہ ہے ۔ (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا ) مگر اکثر حضرات اور تابعین کے نزدیک پہلی آیت سورہ بقرہ کی آیت مذکورہ ہی ہے ۔ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (عنہم) نے جس کو پہلی فرمایا ہے وہ بھی ابتدائی آیتوں میں ہونے کے سبب پہلی کہی جاسکتی ہے ۔   (معارف القرؔن ج اص 469)

مکہ معظمہ میں جہاد و قتال کے احکام نہیں تھے ۔ یہ سب سے پہلی آیت ہے  (ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ ) جو مکہ مکرمہ میں ہی قتال کے متعلق نازل ہوئی ۔ اور اس کا عمل ہجرت کے بعد شروع ہوا اس کے بعد دوسری آیت ( اذن للذین یقاتلون ) نازل ہوئی ۔

حکم جہاد کی شرعی حیثیت !

   ( کتب علیکم القتال ) یعنی تم پر جہاد فرض کیا گیا ، ان الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہو تا ہے کہ جہاد ہر مسلمان پر ہر حالت میں فرض ہے ، بعض آیت قرآنی اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات سے معلوم ہو تا ہےکہ یہ فریضہ فرض عین کے طور پرہر مسلم پر عائد  نہیں ۔ بلکہ فرضِ کفایہ ہے کہ مسلمان کی ایک جماعت اس فرض کو ادا کردے تو باقی مسلمان سبکدوش سمجھے جائیں گے ، ہاں کسی زمانہ یا ملک میں کوئی جماعت بھی فریضہ جہاد ادا کرنے والی نہ رہے تو سب مسلمان ترکِ فرض کے گناہ گار ہو جایئں  گے ۔ حدیث میں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد الجھاد ماض الی یوم القیامہ کا یہ مطلب ہے کہ قیامت تک ایسی جماعت کا موجود رہنا ضروری ہے جو فریضہ جہاد ادا کرتی رہے ۔

نیز صحیح بخا ری  ومسلم کی حدیث  ہےکہ ُُ ُ  ایک شخص نے آنحضر ت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے شر کت کی اجا زت چا ہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے در یا فت کیا کہ تمہا رے ماں باپ  زندہ ہے؟ اس نے عر ض کیا کہ ہاں زندہ ہے۔آپ نے فر مایا کہ پھر جاؤ، ماں باپ کی خد مت کرکے جہا د کا ثواب حا صل کروِِِ،،۔ اس سے یہ بھی   معلو م ہوا کہ جہا د فرض کفا یہ ہے جب مسلما نوں کی ایک جما عت فریضہ جہا د کو قا ئم کئے ہوئے ہو تو باقی مسلمان دوسری خدمتوں اور  کاموں میں لگ سکتے ہیں ۔ ہاں اگر کسی وقت امام المسلمین ضرورت سمجھ کر نفیر عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکتِ جہاد کی دعوت دے تو پھر جہاد سب پر فرض عین ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم نے  سورہ توبہ میں ارشاد فرمایا ۔

    (یایھا الذین امنو اما لکم اذا قیل لکم انفرو ا فی سبیل اللہ اثا قلتم )

''اے مسلمانوں ! تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل بن جاتے ہو'' ۔                            

    اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے اسی طرح خدانخواستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہوں ۔اور مدافعت کرنےوالی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح  قادر اور کافی  نہ ہو ۔ تو اس وقت بھی یہ فریضہ  اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہو جاتا ہے ۔ اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو ان کے پاس والے مسلمانوں پر ، یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرضِ عین ہوجاتاہے  ۔قرآن کریم کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہاء و محدثین نے حکم قرار دیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے ۔ (معارف القرآن ص 18 ج 4 )

جب امیر المؤمنین کی طرف سے جہاد کی دعوت مسلمانوں کو دے دی جائے ۔اور اسلامی شعائر کی حفاظت اس پر موقوف ہو کیونکہ اس وقت ترکِ جہاد کا وبال صرف تارکین جہاد پر نہیں بلکہ پورے مسلمانوں پر پڑتاہے ۔ کفار کے غلبہ کے سبب عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور بہت سے بے گناہ مسلمان قتل وغارت  کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کے جان ومال خطرہ میں پڑجاتے ہیں ۔(معارف القرآن ص 213 ج 4 )

جس وقت اسلام اور مسلمانوں سےدفاع کی ضرورت ِ شدید ہو اس وقت یقیناً جہاد تمام عبادات سے افضل ہو گا ۔ جیسا کہ غزوہ خندق میں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا ہو جانے کے واقعہ سے ظاہر ہے ۔  (معارف القرآن ص335 ج 4 )

مقصدِ  جہاد  :۔  مؤمن کی جدو جہد کا یہی مقصد ہو تا ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون رائج ہو اور اللہ کا حکم بلند ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالٰی تمام مخلوق کا مالک ہے اور اس کا قانون خالص انصاف پر مبنی ہے ۔ اور جب انصاف کی حکومت قائم ہوگی تو امن قائم رہے گا ۔ دنیا کے امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں وہ قانون رائج ہو جو خدا کا قانون ہے ۔ لہذا کامل مؤمن جب جنگ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہی مقصد ہو تا ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے میں کفار کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کفر کی ترویج ہو اور کفر کا غلبہ ہو ۔ آیت   ( وان نکثوا ایمانھم من بعد عھد ھم واطعنو فی دینکم فقاتلو ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون ) ۔  (9 : 12 ) میں مسلمانوں کو اس کی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی قوم سے اپنا غصہ اتارنے کے لیے نہ لڑیں بلکہ ان کی اصلاح وہدایت کو مقصد بنائیں  اس آیت میں یہ بتلا  دیا کہ جب وہ اپنی  نیت کو اللہ کے لیے صاف کرلیں اور محض اللہ کے لیے لڑیں تو پھر اللہ تعالٰی اپنے  فضل سے ایسی صورتیں بھی پیدا فرمادیں گے کہ ان کے غم وغصہ کا انتقام بھی خود بخود ہو جائے ۔

( معارف القرآن ص 325 ج 4 )

چنانچہ ہر مسلمان جہاد میں جتنی عملی شرکت یا مالی معاونت کرسکتا ہو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے ۔  

مدت جہاد   :۔ (وقاتلو ھم  حتٰی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ )  

خلاصہ اس تفسیر کا یہ ہے کہ مسلمانوں پر اعداء اسلام کے خلاف جہادو قتال اس وقت تک واجب ہے جب تک مسلمانوں پر ان کے مظالم کا فتنہ ختم نہ ہو  جائے اور اسلام کو سب ادیان پر غلبہ حاصل نہ ہوجائے اور یہ صورت صرف قرب قیامت میں ہوگی اس لیے جہاد کا حکم قیامت تک جاری اور باقی ہے ۔ ( جیساکہ حدیث شریف سے ثابت ہے ۔ ( الجھاد ماض الی یوم القیامۃ ) ( معارف القرآن ص 233 ج 4 )

( حتی یعطوا لجزیۃ ) ( 9 : 29 ) ۔۔۔۔۔۔۔  الخ ۔ میں ان لوگوں سے جہاد وقتال  کرتے رہنے کی ایک حد اور انتہا بھی بتلائی ہے یعنی یہ حکم قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وہ ماتحت ہو کر رعیت بن کر جزیہ دینا منظور نہ کرلیں ۔ (معارف القرآن ص 320 ج 4 )

جزیہ کی حقیقت اور  رفع اشکا ل :۔

اصطلاح شرعی میں جزیہ سے مراد وہ رقم ہے جو کفا ر سے قتل کے بدلہ میں لی جا تی ہے ۔ کفر وشرک اللہ اور  رسول کی بغاوت ہے۔اس کی اصل سزا قتل ہے۔ مگر اللہ تعا لی" نے اپنی رحمت کاملہ سے ان کی سزا میں تخفیف کردی  کہ اگر وہ اسلامی حکو مت کی رعیت بن کر عام اسلامی قانون کے ماتحت رہنا منظور کریں تو ان سے معمولی رقم جزیہ کی لے کر چھو ڑدیا جائے۔اور اسلامی ملک کاباشندہ ہونے کی حیثیت سے ان کی جان ومال ، آبروکی حفاظت اسلامی حکومت کے ذمہ ہوگی ۔ انکی مذہبی رسومات میں کوئی مزا حمت نہ کی جائے ۔ اسی رقم کو جزیہ کہاجاتاہے۔

جزیہ کفارسے سزائے قتل رفع کر نےکا معاو ضہ ہے۔ اسلا م کا بدلہ نہیں۔ اس لئے یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ تھوڑے سے دام لے کر اسلا م سے اعراض اورکفر پر قائم رہنے کی اجازت کیسے دےدی گئ۔اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اپنے مز ہب پر قائم رہنے ہوئے اسلامی حکو مت میں رہنےکی اجازت بہت سے اُن لوگوں کو بھی ملتی ہے جن سے جز یہ نہیں لیا جا تا مثلاً عورتیں ، بچے،بوڑھے۔ مزہبی پیشوا،اپاہج،معزور۔اگر جزیہ اسلام کا بدلہ ہوتاان سے بھی لیاجاناچاہئےتھا۔ (معارف القر  آن ص 365 ج4 )                                                                                                                                                  

   طریق غلبہ اور جہاد کی تیاری                         

غلبہ اور بلندی حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی چیز اصل ہے یعنی ایمان اوراس کےتقاضےپورےکرنا۔ایمان کےتقاضہ میں وہ تیاریاں بھی داخل ہیں جوجنگ کےسلسلےمیں کی جاتی ہیں۔یعنی اپنی فوجی قوت کااستحکام،سامانِ جنگ کی بہم رسانی اورظاہری اسباب سےبقدروسعت آراستہ ومسلح ہوناغزوہ احدکےواقعات اوّل سےآخرتک ان تمام امورکےشاھدہیں۔(معارف القرآن ص194ج 2)قرآن پاک میں ارشادہے:۔

''وَ اَعۡدُوۡ الَھُمۡ مَّااسۡتَطَعۡتُمۡ مّنۡ قُوَّۃِ۔۔۔۔۔'' الیٰ آخر(60:8)

یعنی سامان جنگ کی تیاری  کرو کفار کے لیے جس قدر  تم سے ہو سکے اس میں سامان جنگ کی تیاری کے ساتھ  ( ما استطعتم ) کی قید لگا کر یہ اشارہ فرما یا  دیا کہ تمہاری کامیابی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تمہارے مقابل کے پاس جیسا اور جتنا اور بھی سامان ہے تم بھی اتنا ہی حاصل کرلو بلکہ اتنا کافی  ہے کہ اپنی مقدور  بھر جو سامان ہو سکے وہ جمع کرلو تو اللہ تعالٰی کی نصرت وامداد تمہارے ساتھ ہو گی ۔

صحیح احادیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سامان جنگ فراہم کرنے اور اس کےاستعمال کی مشق کو بڑی عبادات اور موجب ثواب قرار دیا ہے ۔

''من قوۃٍ'' عام لفظ  اختیار فرما کر اس طرف سے بھی اشارہ کردیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ملک و قوم کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے ۔ اس لیے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت ، ٹینک ،لڑاکا ،طیارے ، آبدوز اور کشتیاں جمع کرنا چاہئے کیو نکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں اور اس کے لیے جس علم وفن کے سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کا اور کفار کے مقابلہ کا کام لیا جائے گا تو بھی جہاد کے حکم میں ہے ۔ ( معارف القرآن ص 672 ج 4 )

سامان جنگ اکٹھا کرنے کی مصلحت :۔ آیت مذکورہ ( ترھبون بہ عدوا اللہ و عدو کم ) میں سامان جنگ کی تیاری کا حکم دینے کے بعد اس سامان کے جمع کرنے کی مصلحت اور اصل مقصد بھی ان الفاظ میں بیان فرمایا یعنی سامان جنگ و دفاع جمع کرنے کا اصل مقصد قتل وقتال نہیں بلکہ کفر وشرک کو زیر کرنا اور مرعوب و ملغوب کردینا ہے ۔ وہ کبھی صرف زبان یا قلم سے بھی ہو سکتا ہے  اور بعض اوقات اس کے لیے قتل وقتال ضروری ہو تا ہے ، جیسی صورت حال ہو اس کے مطابق  دفاع کرنا فرض ہے ۔                              ( ص  273 ج 4 )

سامان جنگ کے ساتھ نظر اللہ تعالٰی پر ہو :۔

 (یا ایھا الذین اٰمنو خذو حذرکم )   ۔۔۔۔الخ ۔ اس آیت کے پہلے حصہ میں جہاد کرنے کے لیے اسلحہ کی فاہمی کا حکم دیا گیا اور دوسرے حصہ میں اقدام جہاد کا ۔ اس سے ایک بات تو یہ معلو م ہوئی جس کو متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ ظاہری اسباب کو اختیا ر کرنا تو اس کے منافی نہیں ہے ۔

دوسری یہ بات معلوم ہوئی کہ یہاں اسلحہ کی فرہمی کا حکم تو دے دیا گیا لکین یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ اس کی وجہ سے تم یقیناً ضرور محفوظ ہی  رہو گے ۔  اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا گیا کہ اسباب کا اختیار کرنا صرف اطمینان قلب کے لیے ہوتا ہے ۔ ورنہ ان میں فی نفسہ نفع ونقصان کی کو ئی تاثیر نہیں ہے ۔     ( ص 474 ج 4 )

حصول کامیابی کے لیے قرآنی ہدایات :۔

سورہ انفال کی آیت 45 ، 46  میں حق تعالٰی نے مسلمانوں کی میدان جنگ اور مقابلہ دشمن کے لیے ایک  خاص ہدایت نامہ دیاہے جو ان کےلئے دنیا میں کامیابی اور فتح مندی کا اور آخر ت کی نجات وفلاح کا نسخہ اکسیر ہے ۔ اورقرون اولٰی کی تمام جنگوں میں مسلمانوں کی فوق العادت کامیابیوں اورفتوحات کارازاسی میں مضمرہےاوروہ چندچیزیں ہیں۔

اول ثبات:۔یعنی ثابت رہنااورجمنا،جس میں ثبات قلب اور ثبات قدم دونوں داخل ہیں۔کیونکہ جب تک کسی شخص کادل  مضبوط اورثابت نہ ہواس کاقدم اعضاء ثابت نہیں رہ سکتے(یہ بات)اہل تجربہ سےمخفی نہیں کہ میدان جنگ کاسب سےپہلااورسب سےزیادہ کامیاب ہتھیارثباتِ قلب اورقدم ہی ہے۔ دوسرےسارےہتھیاراس کےبغیربیکارہیں۔

دوسرےذکراللہ:یہ وہ مخصوص اورمعنوی ہتھیارہےجس سےمؤمن کےسواعام دنیاغافل ہے۔پوری دنیاکی حکومتیں جنگ کےلئےبہترین اسلحہ اورنئےسےنئےسامان  مہیا کرتی ہیں اور فوج کے ثابت قدم رکھنے کی پوری تدبیریں کرتی ہیں مگر مسلمانوں کے اس معنوی اور روحانی ہتھیار سے بے خبر اور نہ آشنا ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ثبات قدم کا اس سے بہتر   کوئی نسخہ بھی نہیں ۔ کیسی ہی مصیبت اور پریشانی ہو اللہ کی یاد سب کو ہوا میں اڑادیتی ہیں اور انسان کے قلب کو مضبوط اور قدم کو ثابت رکھتی ہے۔  

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض غزوات میں انہیں ہدایت کو مستحضر کرانے کے لیے عین میدانِ جنگ میں یہ خطبہ دیا '' اے لوگوں ! دشمن کے مقابلہ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالٰی سے عافیت مانگو ۔ اور جب ناگزیر طور پر  مقابلہ ہو ہی جائے تو پھر صبر ثبات کو لازم پکڑو اوریہ سمجھ لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے ۔ (ص 254 ج 4 )

آخری آیت ( 8: 22 ) میں عام قانون کی صورت سے بتلا دیا ۔ ( ان اللہ مع الصابرین ) یعنی اللہ تعالٰی ثابت قدم رہنے والوں کا ساتھی ہے ۔ اس میں میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے والے بھی شامل ہیں اور عام احکام شرعیہ کی پابندی پر  ثابت قدم رہنے والے حضرات ان سب کے لیے معیت الٰہیہ کا وعدہ ہے ۔ اور معیت ہی ان کی فتح وظفر کا اصلی راز ہے کیو نکہ جس کو قادر مطلق کی معیت نصیب ہوگئی اس کو ساری دنیا مل کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی ۔ ( ص685 ج 4 )

سفر جہاد کا ایک اہم ادب :۔

قرآن پاک میں ارشاد ہیں ۔ ( فَا نۡفِرُوۡ ا ثُبَاتٍ اَوِنۡفِرُوۡا جَمِیۡعَا )یعنی اگر جہاد کے لیےنکلو تواکیلےاورتنہانہ نکلوبلکہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں نکلویاایک کثیر(جمیعا)لشکرکی صورت میں جاؤ ۔کیونکہ اکیلےلڑنےکےلئےجانے میں نقصان کاقوی احتمال ہے اوردشمن ایسے موقع سےپوراپورافائدہ اُٹھالیتاہے۔یہ تعلیم توجہادکےموقع کےلئےمسلمانوں کو دی گئی ہے۔لیکن عام حالات میں بھی شریعت کی یہی تعلیم ہےکہ اکیلےسفرنہ کیاجائے۔(ص474ج2)

انجامِ کارکامیابی اہل ایمان کی ہوتی ہے:۔

قرآن پاک میں ارشادہےکہ:''وَاَنۡتُمُ الاعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ہ''

اس آیت میں ایک اہم ضابطہ اوراُصول کی طرف رہنمائی فرمائی وہ یہ کہ اللہ تعالٰی کی عادت اس عالم میں یہی ہےکہ وہ سختی،نرمی،دکھ،سکھ،تکلیف وراحت کےدنوں کو لوگوں میں ادل بدل کرتے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے کسی باطل کو قوت کو عارضی فتح و کامرانی حاسل ہو جائے تو جماعت حقہ ، کو اس سےبد دل نہیں ہو نا چاہئے اور یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم کو اب ہمیشہ شکست ہی ہو ا کرے گی ۔ بلکہ اس شکست کے اسباب کا پتہ لگا کر ان اسباب کا تدارک کرنا چاہئے ۔ انجام کا فتح جماعت حقہ  ہی کو نصیب ہو گی۔ (ص 195 ج 2)

دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں ۔ ( وَ کَانَ حَقَّاً عَلَیۡنَا نَصۡرُ الۡمُئۡومِنیۡنَ )(30 47 ) اور ہمارے ذمہ تھا کہ ہم مؤمنین کی  مدد کرتے ۔  اس کا تقاضا بظاہر یہ تھا کہ مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں کبھی  شکست نہ ہو ۔ حالانکہ بہت سے واقعات اس کے خلاف ہوئےہیں اور ہوتے رہتے ہیں ۔ اس کا جواب خود اسی آیت میں موجود ہے کہ مؤمنین سے مراد وہ مجاہد ین فی سبیل اللہ ہیں جو خالص اللہ کے لیے کفار سے جنگ کرتے ہیں ۔ایسےلوگوں کاہی انتقام اللہ مجرمین سےلیتےہیں اوران کوغالب کرتےہیں۔جہاں کہیں اس کےخلاف کوئی صورت پیش آتی ہےوہاں عموماًمجاہدین کی کوئی لغزش ان کی شکست کا سبب بنتی ہے جیساغزوہ احدمیں ہوا۔

کامیابی کےلئےگناہوں سے بچنالازمی ہے

جو لوگ محض نام ، مؤمن مسلمان رکھ لیں ۔ احکام خداوندی سے غفلت و سرکشی کے عادی ہو ں ، اور غلبہ کفار کے وقت بھی اپنے گناہوں سے تائب نہ ہو ں وہ اس وعدہ  میں شامل نہیں وہ نصرت الہیہ کے مستحق نہیں ۔ یوں اللہ تعالٰی اپنی رحمت سے بغیر کسی استحقاق کے بھی نصرت وغلبہ فرمادیتے ہیں ۔ اس کی امید رکھنا اور اس سے دعا مانگنا ہر حال میں مفید ہی مفید ہے ۔  ( ص 761 ج 6 )

ظاہری شکست کبھی امتحان کے لئے ہوتی ہے :۔

سورہ عنکبوت کی آ یت   (   29 :372 )  میں (وَھُمۡ لاَ یُفتنُوۡنَ ) فتنہ سے مشتق ہے ۔جس کے معنی آزمائش کے ہیں ۔ اہل ایمان خصوصا انبیاء وصلحا کو دنیا میں مختلف قسم کی آزمائشوں سے گذرناہو تا ہے ، پھر انجام کا ر فتح اور کامیابی ان کی ہوتی ہے ۔ ان امتحانات اور شدائد کے ذریعہ مخلص اور غیرمخلص اور نیک وبد میں ضرور امتیاز کریں گے ۔ یعنی اللہ تعالٰی کو تو ہر انسان کا صادق یا کاذب ہونا اس کے پیدا ہو نے سے پہلے بھی معلوم ہے۔ امتحانات اور آزمائشوں کے جان لینے کے معنی یہ ہیں کہ اس امتیاز کو دوسروں پر بھی ظاہر فرمادیں ۔  (ص674 ج 6)

                  

                  ضرورت جہاداور  تر ک کےنقصانات                                                   

سور ہ محمد کی آیت 22کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے احکام شرعیہ الہیہ سےروگردانی کی جن میں حکم جہادبھی شامل ہےاس کا اثریہ ہوگاکہ تم جاہلیت کے قدیم طریقوں پرپڑجاؤگےجس کالازمی نتیجہ زمین میں فساداورقطع ارحام ہےجیساکہ جاہلیت کےہر کام میں اس کا مشاہدہ ہوتاتھاکہ ایک قبیلہ دوسرےقبیلہ پر چڑھائی اورقتل وغارت کرتاتھا۔اپنی اولادکوخوداپنےہاتھوں زندہ درگور کردیتےتھےاسلام نےان تمام رسومات جاہلیت کومٹایااوراس کےمٹانےکےلئےحکم جہادجاری فرمایاجواگرچہ ظاہرمیں خونریزی ہے مگردرحقیقت اس کاحال سڑےہوئےعضوکوجسم سےالگ کردیناہےتاکہ جسم سالم رہے۔جہادکےذریعہ عدل وانصاف اورقرابتوں اوررشتوں کا احترام قائم ہوتا ہے۔ (ص(41: ج 8)

دوسری جگہ ارشاد ہے۔( وَ لَوۡ لاَ دَفَع اللہ الناس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ )الٰی آخر الایۃ(40:22) اس جہاد و قتال کی حکمت کا اور اس کا بیان ہے کہ یہ کوئی نیا حکم نہیں پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کو بھی قتال کفار کے احکام دئیے گئےہیں۔ اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی مذہب اور دین کی خیر نہ تھی۔ سارے ہی دین و مذہب اور ان کی عبادت گاہیں ڈھا دی جاتیں۔

حالتِ عذر میں ترکِ جہاد کی گنجائش

         قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔فَضلَ اللہُ المُجَا ھِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِِِِھِمۡ وَ اَنۡفُسِھِمۡ عَلَی القَاعِدِیۡنَ دَرَجَۃَ وَّکلا وعَدَاللہُ الۡحُسۡنَیٰ  ۔

         یعنی اللہ تعالٰی نے مجاھدین کو تارکینِ جہاد پر فضیلت دی ہے اور اللہ تعالٰی نے دونوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔

اس میں ایسے لوگوں سے جو عذرکے سبب یا کسی دوسری دینی خدمت مشغول ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوں، تو ان سے بھی بھلائی کا وعدہ مذکورہ ہے ۔ ورنہ اس کے چھوڑنے والوں سے وعدہ ہونے کی  ضرورت نہ تھی۔

اسی طرح ایک دوسری آیات میں ہے:

(فَلَوۡ لاَنَفَرَ مِنۡ کُلَ فِرۡقَۃِ مِنھُمۡ طَائفۃ لِیَتفقھوافَی الدینَ) "

اور کیوں نہ نکل کھڑی ہوئی تمھاری ہر بڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت اس کام کے لئے کہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرے"۔

اس میں خود قرآن کریم نے یہ تقسیم عمل پیش فرمائی۔ کہ کچھ مسلمان جہاد کا کام کریں اور کچھ تعلیم دین میں مشغول رہیں۔ (ص 517 ج 1)

حا لت عذر کی حقیقت:۔

سورہ توبہ کی آیت 46  وَلَوۡ اَرَدُ وۡ الۡخُرُوۡجَ لاَ عَدُوَّ لَہُ عُدُۃُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی اگر واقعی یہ لوگ جہاد کے لئے نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لئے ضروری تھا کہ کچھ تیاری بھی توکرتے ۔ لیکن انھوں نے کوئی تیاری نہیں کی ۔ جس سے معلوم ہوا کہ عذر کا بہانہ غلط تھا ۔ در حقیقت ان کا ارادہ ہی جہاد کے لئے نکلنے کا نہیں تھا ۔

اس آیت سے ایک اہم اصول مستفاد ہو ا کہ جو تعمیل حکم کے لئے تیار ہوں پھر کسی اتفاق حادثہ کے سبب معذور ہو گئے ۔ جس کی وجہ سے نہ جا سکے تو ان کا عذر معقول ہے ۔    ( ص385 ج 4 )

بغیر عذر شرکتِ جہادسےمحرومی کاوبال :۔

غزوہ تبوک میں حکم عام کے باوجود بعض منافقین شریک نہیں ہوئے ، اور صرف خود ہی نہیں بیٹھے رہے بلکہ دوسروں کو بھی تلقین  کی کہ :۔

لاَتَنفِرُوۡ ا فِی الحَر :۔یعنی گرمی کے زمانہ میں جہاد کے لئے نہ نکلو۔ غزوہ تبوک کا حکم   اس وقت ہوا تھا جب بہت سخت گرمی پڑرہی تھی حق تعالٰی نےان کا جواب دیا کہ :۔

                                 (  قُلۡ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرَّا  )

یعنی یہ بد نصیب اس وقت کی گرمی کو دیکھ رہے ہیں اور اس سے بچنے کی فکر کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں حکم خدا اور رسول کی نافرمانی پر جو جہنم کی آگ سے سابقہ پڑنے والا ہے ۔ اس کی فکر نہیں کرتے کیا یہ موسم کی گرمی جہنم کی گرمی سے ذیادہ ہے ۔    ( ص 432 ج 4)

جہاد وقتال میں احکام کی پابندی :۔

قرآن پاک کی آیت (وَاِنِ استَنصرُوۡ کُمۡ فِی الدِینِ فَعَلَیکُم النصرُ    ( 8 : 72 )  اس میں مذہبی تعصب اور عصبیت جاہلیت کی روک تھام کرنے کے لئے یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ مذہبی رشتہ اگر چہ اتنا قوی اور مضبوط ہے مگر معاہدہ کی پابندی اس سے بھی زیادہ مقدم اور قابل ترجیح ہے مذہبی تعصب کے جوش میں معاہدہ کی خلاف ورزی جائز نہیں ۔ یہی شریعت اسلام کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے ان کو دنیا میں فتح و عزت اور آخرت کی فلاح کا مالک بنایا ہے ۔ ورنہ عام طور پر دنیا کی حکومتیں معاہدات کا ایک کھیل کھیلتی ہیں جس کے ذریعہ کمزور کو دبانا اور قوت والے کو فریب دینا مقصد ہوتا ہے ۔ جس وقت اپنی ذرا سی مصلحت ہوتی ہے تو سو طرح کی تا ویلیں کرکے معاہدہ کو ختم کر ڈالتے ہیں ۔ اور الزام دوسروں کے سر لگانے کی فکر کرتے ہیں ۔

صلح حدیبیہ کے وقت ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کفار مکہ سے صلح کرلی اور  شرائط صلح میں یہ بھی داخل تھا کہ مکہ سے جو شخص اب مدینہ جائے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  واپس کردیں ۔ عین اس معاملہ صلح کے وقت ابو جندل رضی اللہ عنہ (عنہم)   جن کو کفار مکہ نے قید کرکے طرح طرح کی تکلیفوں میں ڈالاہواتھا  کسی طرح حاضر خدمت ہوگئے اور اپنی مظلومیت کا اظہار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مدد کے طالب ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  جو رحمت عالم بن کر آئے تھے ایک مظلوم مسلمان کی فریاد سے کتنے متاثر  ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ کرنا بھی ہر شخص کے لئے آسان نہیں مگر اس تاثر کے باوجود آیت مذکورہ کے حکم کے مطابق ان کی امداد کرنے سے عذر فرما کر واپس کردیا ۔ ( آپ    صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیش نظریہ بھی تھاکہ جلد مکہ فتح ہونے والا ہے اور یہ سب قصے ختم ہونے والے ہیں )  ۔  ( معارف القرآن ص 298 ج 4 )

( اسی طرح) غزوہ بدر میں جب کہ تین سو تیرہ بے سرو سامان کا مقابلہ ایک ہزار با شوکت کافروں سے ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک  شخص بھی اس وقت ان کی امداد کو پہنچ جائے تو کس قدر غنیمت معلوم ہو گا ۔ لیکن اسلام کی پابندی عہد ان سب باتوں سے مقدم ہے عین میدان کارِ راز میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ (عنہم)   اور ابوحسل رضی اللہ عنہ (عنہم)  دو صحابی شرکتِ جہاد کے لئے پہنچتے ہیں ، مگر آ کراپنے راستے کا حال بیان کرتے ہیں کہ راستے میں کفار نے روکا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد کو جارہےہو ۔ ہم نے انکار کیا اور عدم شرکت کا وعدہ کرلیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس وعدہ کا علم ہوا تو دونوں کو شرکت جہاد سے روک دیا اور فرمایا کہ ہم ہر حال میں وعدہ وفاکریں گے ، ہمیں اللہ تعالٰی کی امداد کافی ہے اور بس ۔

حقیقت میں اللہ کے احکام کی پابندی ہر چیز سے مقدم ہے اللہ کی نافرمانی اتنی خطرناک ہے کہ جہاد جیسا مبارک عمل بھی جنت میں لے جانے کا اس وقت ذریعہ بنے گا جب اللہ کی نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے حضرت جابر بن عبد اللہ   رضی اللہ عنہ (عنہم)  سے منقول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا گیا کہ اہل اعراف کون لوگ ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی والدین کی مرضی اور اجازت کے خلاف جہاد میں شریک ہوں گئے اور اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ،تو ان کو جنت کے داخلہ سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم کے داخلہ سے شہادت فی سبیل اللہ نے روک دیا ۔ ( معارف القرآن ص 568 ج 3 )

معلوم ہوا کہ جہاد کے ساتھ اللہ کے دوسرے احکام کی پابندی بھی لازم ہے ۔

خداسے تعلق تمام رشتوں سے مقدم ہے :۔

مسلمان صرف اللہ کےلئے اور اسلام کے لئے جہاد کرتا ہے اور جو وطن یا نسب ، اللہ تعالٰی اور اسلام کی راہ میں حائل ہو ،اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کردیتا ہے ۔ اسلام کی سب سےپہلی ہجرت مدینہ نے اور غزوہ بدر و احد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیئے ہیں ۔ کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لئے پڑی ہیں کہ وہ اللہ و رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دشمن تھے اگر وطن اور قبائلی وحدتیں مقصود ہو تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔  (جہاد ۔ ص13 )

غزوہ بدر میں اس وقت جب دونوں لشکر ملے تو دیکھا گیا کہ بہت سے اپنے ہی لخت جگر تلواروں کی زد میں ہیں ۔ مگر اس حزب اللہ کا عقیدہ تھا

ہزاروں خویش کہ بیگانہ از خدا باشد

فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد

چنانچہ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (عنہم) کے بیٹے ( جو اب تک کافر تھے میدان میں آئے ) تو خود صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (عنہم) کی تلوار ان کی طرف بڑھی عتبہ سامنے آیا تو اس کے فرزند حضر ت حذیفہ رضی اللہ عنہ (عنہم) تلوار کھینچ کر باہر نکلے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ (عنہم) کا ماموں میدان میں بڑھا تو فاروقی تلوار نے خود اس کافیصلہ کیا۔(پیغمبرامن عالم کی حیثیت سےص105)

رشتہ داری اوردوستی کے سارےتعلقات پراللہ تعالٰی ارواس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کاتعلق مقدم ہےجوتعلق اس سے ٹکرائےوہ توڑنےکےقابل ہے۔صحابہ کرام کاوہ عمل جس کی وجہ سے وہ ساری اُمت سے افضل واعلیٰ قرارپائےیہی چیز تھی کہ انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  پراپنی جان ومال اورہررشتہ وتعلق کو قربان کرکے زبان حال سےکہا؛

تونخل خوش ثمرکیستی کہ سرو سمن

ہمہ زخویش بریدندوباتوپیوستند

بلال حبشی رضی اللہ عنہ (عنہم)،صہیب رومی رضی اللہ عنہ (عنہم)،سلمان فارسی رضی اللہ عنہ (عنہم) اورقریش مکہ ،انصارمدینہ توسب آپس میں بھائی بھائی ہوگئےاور بدر و احدکےمیدانوں میں باپ،بیٹےبھائی بھائی کی تلواروں نےآپس میں ٹکراکراس کی شہادت دی کہ ان کامسلک یہ تھاکہ؛

                   ہزارخویش کہ بیگانہ از خداباشد

فدائےیک تن بیگانہ کاشناباشد                                 (معارف القرآن ص338ج4)

جہادکاعمل صدقہ جاریہ سےبھی بڑھاہوا۔

اسلامی سرحدوں کی حفاظت کےلئےجنگ کی تیاری کےساتھ وہاں قیام کرنےکورباط یامرابطہ کہا جاتاہےرباط کےفضائل بےشمارہیں صحیح مسلم میں بروایت سلمان رضی اللہ عنہ (عنہم) مذکورہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکہ''ایک دن کا رباط ایک  مہینہ مسلسل روزےاورتمام شب عبادت میں گذارنے سےبہتر ہے۔اوراگروہ اسی حال میں مرگیاتواس کےعمل رباط کاروزانہ ثواب ہمیشہ کےلئےجاری رہےگا۔اور اللہ کی طرف سےاس کارزق جاری رہےگا۔اوروہ شیطان سےمامون ومحفوظ رہےگا۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکہ ہرایک مرنےوالےکاعمل اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتاہے۔بجزمرابط کےکہ اس کاعمل قیامت تک بڑھتاہی رہتاہے،اورقبرمیں حساب وکتاب لینےوالوں سےمامون ومحفوظ رہتاہے۔

ان روایات سےمعلوم ہوا کہ عمل رباط ہرصدقہ جاریہ سے بھی زیادہ افضل ہے۔کیونکہ صدقہ جاریہ کاثواب تواسی وقت تک جاری رہتاہےجب تک اس کےصدقہ کئےہوئےمکان،زمین،یاتصانیف کُتب یاوقف کی ہوئی کتابوں وغیرہ سےلوگ فائدہ اُٹھاتےرہیں جب یہ فائدہ منقطع ہوجائےگاتو ثواب بھی بندہوجائےگا۔مگرمرابط فی سبیل اللہ کاثواب قیامت تک منقطع ہونےوالانہیں۔اوروہ جتنے نیک کام دنیامیں کیاکرتاتھا۔ان کاثواب بھی بغیرعمل کئےہمیشہ جاری رہے گا۔(معارف ص275ج2)

مشروعیت جہادکی حکمت ومصالح؛

اس آیت( وَلَوۡ یَشَآءُاللہُ لاَ نۡتَصَرَمِنۡھُمۡ ) (سورۂ محمد؛آیت4)میں حق تعالٰی نےارشادفرمایاکہ اس امت میں کفارسےجہادوقتال کی مشروعیت درحقیقت ایک رحمت ہے۔کیونکہ وہ آسمانی عذابوں کے قائم مقام ہے کیونکہ کفر وشرک اور اللہ سے بغاوت کی سزا پچھلی قوموں کو آسمانی اور زمینی عذابوں کے ذریعہ دی گئی ہے ۔ امت محمدیہ میں ایسا ہو سکتا تھا مگر رحمت اللعلمین صلی اللہ علیہ وسلم  کی برکت سے اس امت کو ایسے عذابو ں سے بچا لیا گیا اور اس کے قائم مقام جہاد شرعی کو کردیا گیا جس میں بہ نسبت عذاب عام بڑی سہولتیں اور مصلحتیں ہیں اول تو یہ کہ عذاب میں پوری قومیں مرد ، عورت، بچے سبھی تباہ ہوتے ہیں ۔ اور جہاد میں عورتیں بچے تو مامون ہیں ہی مگرمرد بھی صرف وہی اس کی زد میں آتے ہیں جو اللہ کی دین کی حفاظت کرنے والوں کے مقابلہ پر قتال کے لئے آکھڑے  ہوں پھر اس میں بھی سب مقتول نہیں ہوتے۔ ان میں بہت سے لوگ کو اسلام و ایمان کی تو فیق نصیب ہوجاتی ہے ۔ نیز جہاد کی مشروعیت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذ ریعے جہاد و قتال کے دونوں فریق مسلمان اور کفار کا امتحان ہو جاتا ہے کہ کون اللہ کے حکم پر اپنی جان ومال نثار کرنے کو تیار ہوجاتا ہے اور کون سرکشی اورکفر پر جما رہتا ہے یا اسلام کے روشن دلائل کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیتا ہے ۔       ( معارف القرآن ص30 ج8 )

حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے جہاد کے فرض ہونے کی ایک حکمت یہ بھی فرمائی ہے کہ قہر وغضب اور مدافعت کا مادہ جو انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ جب جہاد کے ذ ریعہ اپنا صحیح مصرف پالیتا ہے تو آپس کی خانہ جنگ اور فساد سے خود بخود نجات ہوجاتی ہے ۔ورنہ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جس چھت میں بارش کا پانی نکلنے کا راستہ پر نالوں کے ذریعہ نہ بنایا جائے تو پھر یہ پانی چھت توڑ کر اندر آجاتاہے ۔

آج اگر غور کیا جائے تو پورے عالم اسلام پر یہی مثال صادق آتی ہے ۔ اور شیطان اور شیطانی تعلیم ،کفر والحاد خدااور رسول سے بغاوت ، فحاشی وعیاشی سے طبیعتیں مانوس ہورہی ہیں ان کی نفرت دل سے نکل چکی ہے  اس پر کسی کو غصہ نہیں آتا ۔ انسانی رواداری ، اخلاقی اور مروت کا سارا زور کفرو الحاد اور ظلم کی حمایت میں صرف ہوتا ہے ۔ نفرت ، بغاوت، عداوت، کا میدان خود اپنے اعضاء جوارح کی طرف ہے ۔ آپس میں ذرا ذراسی بات پر جھگڑاہے ۔ چھوٹاسا نقطہ اختلاف ہو تو اس کو بڑھا کر پہاڑبنادیا جاتا ہے اخبارات و رسائل کی غذایہی بن کر رہ گئی ہے دونوں طرف سے اپنی پوری توانائی اس طرح صرف کی جاتی ہے کہ گویا جہاد ہو رہا ہے دو مخالف طاقتیں لڑرہی ہیں اور کوئی خدا کا بندہ اپنی طرف نظر کرکے نہیں دیکھتا کہ

 

                        ظالم جو بہ رہا ہےوہ تیرا ہی گھر نہ ہو        (وحدت امت ص53 )

خلاف جہاد امور:۔ذیل میں ان امور کا ذکر کیا جاتا ہے جو مقصد جہاد کے خلاف یا نقصان کا باعث بن سکتے ہیں ۔

کفار سے دوستی کی ممانعت:۔  ارشاد باری تعالٰی ہے

یَاَیُّھَاالۡذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لاَتَتِّخِذُوۡا بِطَانَۃً مَنۡ دُونکم  لاَیَالُونَکُمۡ خَبَالاً ۔۔۔۔الخ ۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی بھائیوں کے سوا کسی کو بھیدی اور مشیر نہ بنائیں ۔ کیونکہ یہودی ہو یا نصاریٰ ،منافقین ہوں یا مشرکین کوئی جماعت تمہاری حقیقی خیر خواہ نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ ہمیشہ یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ تمہیں بے وقوف بنا کرنقصان پہنچائیں اور دینی اور  دنیوی خرابیوں میں مبتلا کریں ۔ ان کی  آرزویہ ہے کہ تم تکلیف میں رہو ۔(مَاعَنِتُّمۡ ) کہ کوئی غیر مسلم کسی حال میں مسلمانوں کا حقیقی دوست اور خیر خواہ نہیں ہوسکتا ۔(اِنۡ تَمۡسَسۡکُمۡ حَسَنَۃٌ ) یعنی ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر تمہیں کوئی اچھی حالت پیش آجائے تو یہ ان لوگوں کو دکھ پہنچاتی ہے ۔اور اگرتم پر کوئی بری حالت آپڑتی ہے تو اس سے خوش ہوتے ہیں ۔

منافقین کے کیدومکر اور شدید مخالفین کے عناد اور مخالفت کے نتائج سے محفوظ رہنے کا آسان اور سہل الاصول نسخہ پر بیان کیا گیا کہ ( وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡ ا وَتَتَّقُوۡا لاَیَضُرُّکُمۡ کَیۡدَھُمۡ شَیۡئاً اِنَّ اللہَ بِمَایَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطً ) اگرتم صبر اور تقویٰ اختیار کئے رہوتوتم کو ان کی چالیں ذرابھی نقصان نہ پہنچاسکیں گی ۔  (معارف ص 2 )

اسلام کی کفار کے بارے میں تعلیمِ اخلاق

کفار اگر چہ مسلمانوں کے در پے آزار رہتے ہیں ۔ لیکن اسلام کی تعلیم اخلاق یہ ہے امام قرطبیؒ  نے قرآنی حکم (وَغلُظۡ عَلَیۡھِمۡ ) کہ متعلق فرمایا کہ اس جگہ غلظت استعمال کرنے سے عملی غلظت مراد ہے کہ ان پر احکامِ شرعیہ جاری کرنے میں کوئی رعایت اور نرمی نہ برتی جائے ۔ زبان اور کلام میں غلظت اختیار کرنا مراد نہیں کیونکہ وہ سنت انبیاء کے خلاف ہے وہ کسی سے سخت کلامی اور سب وشتم نہیں کرتے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ     صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :۔ اگر تمہاری کنیز زنا کی مرتکب ہو تو اسکی سزاحد شرعی اس پر جاری کردو مگر زبان ملامت اور طعن و تشنیع نہ کرو ۔''   ( معارف ص 422ج4 )

کفار سے قتال خیر خواہی کے تحت ہوتاہے :۔

اور جہاں تک کفار سے قتال کی بات ہے تو وہ حکم خداوندی ہے کہ ( یَاَ یُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡ ا قَاتِلُوۡا )

(123:9) میں تفصیل بتلائی گئی ہے کہ کفار تو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان سے جہاد وقتال میں ترتیب کیا ہونی چاہئے ۔ اس آیت میں ارشاد ہے کہ کفار میں سےجو لوگ تم سے قریب ہوں پہلے ان سے جہاد کیا جائے ۔ قریب ہونا مقام کے اعتبار سے بھی ہو سکتا ہے اور رشتہ ، نسب اور تعلقات کے اعتبار سے بھی جو قریب ہوں وہ دوسروں سے مقدم کئے جاویں کیونکہ اسلامی جہاد درحقیقت ان کی خیر خواہی کے تقاضہ سے ہے ۔ اور خیر خواہی وہمدردی میں رشتہ دار تعلقات والے مقدم ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو حکم دیا گیا ۔ (وَاَنۡذِرۡعَشِیۡرَتَکَ اۡلاَ قۡرَبِیۡنَ ) یعنی اپنے قریبی عزیزوں کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرائیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی تعمیل فرمائی اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے لوگوں کو کلمئہ حق پہنچایا ۔

                                              (معارف القرآن ص 794 ج 4 )

موت سے گھبراہٹ:۔

قرآن پاک میں ہے ( اَیۡنَ مَاتَکُوۡنُوۡا یُدۡرِککُمُ الۡمَوۡتُ ) ۔۔۔۔ الخ ۔ اللہ تعالٰی نے اس آیت میں جہاد سے رکنے والوں کے اس شبہ کا ازالہ کردیا ہے کہ شاہد جہاد سے جان بچاکر موت سے بھی بچ سکتے ہیں ۔اس لئے فرمایا کہ موت ایک دن آکر رہے گی ۔ خواہ تم جہاں کہی بھی ہو  وہیں موت آئے گی ۔ جب یہ بات ہے توتمھاراجہاد سےمنہ پھیرنا بےکارہے۔(وَلَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡ جٍ مُشَیَّدَ)اس آیت میں کہاگیاکہ موت تم کوبہر کیف پہنچ کررہےگی اگرچہ تم مضبوط محلوں میں ہی کیوں نہ ہو۔(ص484ج2)

جنگ میں بھاگنایاپُشت پھیرنا؛

جنگ چھڑجانےکےبعدپشت پھیرنااورمیدان جنگ سےبھاگنامسلمانوں کےلیےجائزنہیں البتہ دوحالتیں مستثنیٰ ہیں اِلاَّمُتَحَرّفاًلّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیّزًااِلٰی فِئَۃٍ۔یعنی جنگ کےوقت پشت پھیرنادوحالتوں میں جائز ہےایک تویہ کہ میدان سے پشت پیھرنا محض ایک جنگی چال کے طور پر دشمن کو دکھانے کے لئے ہو ، حقیقتاً میدان سے ہٹنا مقصد نہ ہو بلکہ مخالف کو ایک غفلت میں ڈال کر یکبار گی حملہ پیشِ نظرہو ، دوسری استثنائی حالات میں جس میدان سے پشت پیھرنے کی اجازت ہے یہ ہے کہ اپنے موجودہ لشکر کی کمزوری کا احساس کرکے اس لئے پیھچے ہٹیں کہ مجاہدین کی مزیدکمک حاصل کرکے پھر حملہ آور ہو ں سورہ انفال 66 ( فَاِنۡ یِّکُنۡ مّنۡکُمۡ مِائَۃ صَابِرَۃ یَّغۡلَبُوۡا مَا ئَتَیۡنِ الایۃ ۔  یعنی اگر مسلمان سوآدمی ثابت قدم ہوں تو دوسوکفار پر غالب رہنے کی توقع ہے۔ اس لئے پشت پھیرنا جائز نہیں ۔ ہاں فریق مخالف کی تعداد  دوگنی سے بھی زیادہ ہوجائے تو ایسی حالت میں میدان چھوڑ دینا جائز ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (عنہم) نے فرمایا کہ جو شخص اکیلا تین آدمیوں کے مقابلہ سے بھاگا وہ بھاگا نہیں ۔ ہاں جو دو آدمیوں کے مقابلہ میں بھاگا وہ بھاگنے والا ہے ۔ یعنی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے ۔ اب یہی حکم قیامت تک باقی ہے ۔

جمہور امت اور ائمہ کے نزدیک حکمِ شرعی یہی ہے کہ جب تک فریق کی تعداد دوگنی سے زیائد ہو اس وقت تک میدان جنگ سے بھاگنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔  ( معارف ص 200 ج 4 )

4۔ نزاع اوراختلاف؛

سورۂانفال کی آیت46میں مضرپہلوؤں پرتنبیہ کرکےان سےبچنےکی ھدایت ہےاوروہ مضرپہلوجوجنگ کی کامیابی میں مانع ہوتا''باہمی نزاع اوراختلاف ہے(نتیجتاً)تم میں بزدلی پھیل جائےگی اورتمھاری ہوا اکھڑجائے گی ۔وَاصۡبِرُوۡا۔میں نزاع اورجھگڑوں سےبچنےکاکامیاب نسخہ بتلایاہے اسی صفت کانام صبرہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل نظرہے کہ قرآن کریم میں اس جگہ ۔لاَ تَنَازَعُوۡا۔فرمایاہے۔یعنی باہمی کشاکش کوروکا ہے۔اختلاف یااس کےاظہارسےمنع نہیں کیا،اختلافِ رائےجودیانت اوراخلاص کےساتھ ہووہ کھبی نزاع کی صورت اختیارنہیں کرتا۔نزاع وجدال وہیں ہوتاہے جہاں اختلاف رائےکےساتھ اپنی بات ماننےکاجذبہ کام کررہا ہو۔(معارف ص253ج4)

5۔ مال غنیمت میں خیانت؛

لفظ غلول خیانت کےمعنی میں بھی استعمال ہوتاہےاورخاص کرمال غنیمت کی خیانت کےلیےبھی ۔اورمال غنیمت چوری اورخیانت اورجرم عام چوریوں اورخیانتوں سےزیادہ اشدہے،کیونکہ مال غنیمت میں پورے لشکراسلام کاحق ہوتاہے،توجس نےاس میں چوری کی اس نےسینکڑوں،ہزاروں آدمیوں کی چوری کی،اگرکسی وقت تلافی کاخیال بھی آوےتوبہت مشکل ہےکہ سب کوان کاحق پہنچائےیامعاف کرائے۔بخلاف دوسری چوریوں کےکہ مال کامالک معلوم ومتعین ہے کسی وقت اللہ نےتوبہ کی توفیق دی تواس کاحق اداکرکے معاف کراکربری ہوسکتاہے۔یہی وجہ تھی کہ غزوہ میں ایک شخص نے اون کا کچھ حصہ چھپاکراپنے پاس رکھ لیاتھا۔

مال غنیمت کامال تقسیم ہونےکےبعداس کوخیال آیاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لےکرحاضرہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوجودرحمتہ للعالمین ہونےاورامت پرماں باپ سےزیادہ شفیق ہونےکےاس کویہ کہہ کرواپس کردیاکہ اب میں کس طرح سارے لشکرمیں تقسیم کروں اب توقیامت کےروزہی تم اس کولےحاضرہوگے۔

اس لئےغلول کی سزابھی عام چوروں سے زیادہ اشدہے۔کہ میدان حشرمیں جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی۔سب کےسامنےاس کواس طرح رسواکیاجائےگاکہ جومال چوری کیاتھاوہ اس کی گردن پرلداہوگا۔صحیحین میں روایت حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ (عنہم)  مذکورہےکہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکہ دیکھوں ایسانہ ہوکہ قیامت والےروزمیں کسی کو اس طرح دیکھوں کہ اس کی گردن پر اونٹ لداہوا ہے۔(اوریہ اعلان ہوتاہوکہ اس نےمال غنیمت کااونٹ چرایاتھا)

وہ شخص اگرمجھ سےشفاعت کاطالب ہوگاتومیں اس کوصاف جواب دےدوں گاکہ میں نےحکمِ الٰہی پہنچا دیا،اب میں کچھ نہیں کرسکتا۔

اللہ بچائےیہ میدان حشرکی رسوائی ایسی ہوگی کہ بعض روایات میں ہےکہ جن کےساتھ یہ معاملہ ہوگاوہ تمنا کریں گےکہ ہمیں جہنم میں بیھج دیا جائے مگر اس رسوائی سے بچ جائیں ۔ (معارف  ص 233 ج 2 )

6 :۔ فخر وعجب

 قرآن پاک کی آیت  ( فَلَمۡ تَقۡتُلُو ھُمۡ وَلَکِنَّ اللہَ قَتَلَھُمۡ )8؛17)

میں یہ ہدایت دی گی ہے کہ اپنے سعی عمل پر ناز نہ کرو یہ جو کچھ ہوا وہ تمہاری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خالص حق تعالٰی کی نصرت و امداد کاثمرہ تھا ۔ جو دشمن تمہارے ہاتھوں قتل ہوئے ان کو درحقیقت تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالٰی نے قتل کیا ہے اس ہدایت کے ذریعہ اس فخر وعجب کی خرابی سے بچالیا جس کے نشے میں عموماً فاتح اقوام مبتلاہو جایا کرتی ہیں ۔   ( ص 202 ج4 )

اللہ تعالٰی ہم سب کوجذبہ جہاداوراخلاص نصیب فرمائےاورشرعی اصولوں کےتحت جہاد کرنےاورشہادت فی سبیل اللہ کی دولت سےمشرف فرمائیں۔آمین بحرمتہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

                                         ٭٭٭